Sunehri chirya or Momo Story in Urdu
The Urdu Story “Sunehri Chirya or Momo” is a masterpiece of contemporary literature, penned by the renowned author Ismat Chughtai. This captivating tale is a testament to the power of the Urdu Story, delving into the complexities of childhood innocence, vulnerability, and resilience. Through “Sunehri Chirya or Momo”, Chughtai skillfully explores the inner world of her protagonist, laying bare the struggles and triumphs that shape her journey, making this Urdu Story a timeless classic.
At its core, the Urdu Story “Sunehri Chirya or Momo” is a powerful exploration of love, loss, and self-discovery, cementing its place as a landmark in Urdu literature. Chughtai’s masterful storytelling weaves a tale that is both deeply personal and universally relatable, making “Sunehri Chirya or Momo” a beloved Urdu Story among readers. As a result, this Urdu Story continues to captivate audiences, inspiring new generations of readers and writers alike with its thought-provoking narrative.
The Urdu Story “Sunehri Chirya or Momo” remains a cherished favorite among literary enthusiasts, thanks to its timeless themes and masterful storytelling. Chughtai’s writing has ensured that this Urdu Story continues to resonate deeply with readers, challenging us to rethink our understanding of the world around us. If you haven’t already, immerse yourself in the captivating world of “Sunehri Chirya or Momo” and discover why this Urdu Story remains a celebrated classic in the world of Urdu literature.
سنہری چِڑیا اور مومو
ایک گاؤں میں دو بہنیں رہتی تھیں ۔ان میں بڑی بہن کا نام مومو اور چھوٹی بہن کا نام ٹو ٹو تھا ۔ ان کے والدین وفات پا چکے تھے ،تب ہی سے دونوں اپنے چچا کے گھر میں رہتی تھیں مگر کئ سال گزرنے کے باوجود ان پر بہت ظلم کرتی تھی وہ دونوں سے دن بھر کام کرواتی اور کھانا بھی صرف ایک وقت کا دیتی تھی بہت زیادہ کام کرنے کی وجہ سے چھوٹی بہن ٹوٹو اکثر بیمار رہتی لیکن بیماری کے باوجود ان کی چچی ان سے بہت کام کرواتی ٹوٹوں کی وجہ سے بڑی بہن مومو بہت پریشان تھی ایک دن مومو محلے کی ضعیف اور اماں بھی کے پاس گئی اور انہیں بتایا کہ اس کے چھوٹی بہن بیمار ہے اپ کو علاج بتائیں جس سے میری بہن بھی تو کل ٹھیک ہو جائیں اماں بی نے مومو سے کہا اس بیماری کا علاج تو میرے پاس نہیں ہے لیکن اگر تم رحمت بابا کے پاس جاؤ تو وہ تمہیں ضرور کوئی نا کوئی علاج بتائیں گے ۔اب مومو رحمت بابا کے پاس چلی گئی اور اپنی بہن کی بیماری کے بارے میں بتایا رحمت بابا نے کہا۔ بیٹی اس بیماری کا حل تو میرے پاس ہے لیکن اس میں کامیاب ہونا بہت مُشکل ہے ۔مومو نے کہا ۔بابا جی ۔آپ مجھے حل بتائیں میں ہر مُشکل کا سامنا کرنے کو تیار ہوں ۔رحمت بابا نے کہا ایسی بات ہے تو پھر سفر کی تیاری شروع کرو ۔اس گاؤں کے ختم ہونے پر ایک جنگل آئے گا ۔اس جنگل میں بہت سے خطرناک سانپ رہتے ہیں ۔جو کوئی بھی اس جنگل میں گیا ہے اج تک لوٹ کرو واپس نہیں ایا کیونکہ جنگل کے خطرناک سانپ انسانوں کو ڈس لیتے ہیں لیکن اگر تم اس سانپ سے بچ کر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئی تو اس جنگل کے اخر میں ایک بڑا درخت ہے جس پر ایک چڑیا رہتی ہے اس چڑیا کا نام سنہری چڑیاہے اگر تم اس کا نام لے کر اسے تین مرتبہ پکارو گی تو درخت سے نیچے اتر ائے گی اس کے سر پر سبز رنگ کا بال ہوگا وہ بال اتارنے سے چڑیا پری بن جائے گی اور تم سے کہے گی کہ تم اسے اپنی ایک خواہش بتاؤ تم اس سے کہنا کہ پرستان میں جو قیمتی گلاب کا پھول ہے وہ مجھے لا دو فری تمہیں گلاب کا پھول لا کر دے گی اس پھول کا رس نکال کر تم اپنی بہن کو پلانا جسے پینے سے تمہارے بہن صحت یاب ہو جائے گی مومو اپنے مقصد کو دل میں لیے جنگل کی طرف چل پڑی مومن جنگل میں پہنچی تو اسے وہ سانپ نظر ایا مومو سوچنے لگی کہ سانپ سے کیسے بچے اتنے میں سانپ نے ممو کو پاؤں پر ڈس لیا مومو نے فورا اپنا رومال اپنے پاؤں پر باندھ لیا مومو کو پاؤں میں بہت درد ہو رہا تھا لیکن مومو نے ہمت نہ ہاری اور جنگل کے باہر کی طرف چلنا شروع کر دیا جنگل سے نکلتے ہی موم و بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئی شام کے وقت دو بچے وہاں سے گزرے تھے ان دونوں نے مومو کو بے ہوشی کی حالت میں زمین پر پڑے دیکھا تو فورا اپنے والدین کو بلا کر لائے کچھ ہی دیر میں وہاں بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور مومو کو کچھ ہی دور حکیم کے پاس لے گئے حکیم نے مومو کا معائنہ کیا تو مومو کی حالت بہت خراب تھی انہوں نے کچھ جڑی بوٹیوں سے مرہم تیار کیا اور مامو کے پاؤں پر لگا دیا مرہم لگانے سے زہر زیادہ نہیں پھیلا اور مومو کی حالت پہلے سے بہتر ہونا شروع ہو گئی موم کو ہوش ایا تو وہ بہت حیران ہوئی اور حکیم صاحب سے پوچھا وہ یہاں کیسے پہنچی حکیم صاحب نے مومو کو بتایا کہ تم جنگل کے باہر بھی ہوش پڑی تھی تو کچھ لوگ تمہیں یہاں لے کر ائے تھے حکیم صاحب نے پوچھا بیٹی تم جنگل کے باہر کیا کر رہی تھی مومو نے سارا واقعہ بیان کیا تو حکیم صاحب سوچنے لگا کچھ دیر سوچنے کے بعد حکیم صاحب بولے میرے پاس ایک ترکیب ہے اگر تم ریچ والا لباس پہن کر جنگل میں جاؤ گی تو سانپ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا کیونکہ سانپ جانوروں کو نہیں ڈستا فومو نے کہا لیکن ریچ والا لباس مجھے کہاں سے ملے گا حکیم صاحب نے کہا تم سیاہ کا چمڑا اور دھاگا لے اؤ میں تمہیں رینج ماروں لباس بنا دوں گا محمد چمڑا اور دھاگہ لینے کے لیے روانہ ہوئی جب دونوں چیزیں مل گئی ہوں تو مومو نے چمڑا اور دھاگہ لا کر حکیم صاحب کو دے دیا حکیم صاحب نے بہت محنت کے بعد لباس بنا دیا اب مومو کو اپنی کامیابی واضح نظر ارہی تھی وہ بہت خوش تھی اس نے حکیم صاحب کا شکریہ ادا کیا اور جنگل کی طرف چل پڑی ۔ مومو نے پاس چاقو بهی رکھ لیا ۔ جب مومو جنگل میں پہنچی تو اسے سانپ درخت پر چڑھتا ہوا نظر آیا ۔اس نے فوراً حکیم صاحب کا دیا ہوا لباس پہن لیا ۔مومو نے بہت ہمت سے سانپ پر چاقو سے حملہ کیا اور سانپ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا ۔ مومو نے بڑے درخت کے پاس پہنچ کر آواز دی ۔سنہری چڑیا مومو نے تین بار یہ نام لیا تو چڑیا نیچے آ گئی ۔مومو نے چڑیا کے سر سے سبز رنگ کا بال اُتآر ا تو وہ پری بن گئی ۔پری نے کہا ۔ تم مجھے پرستان سے قیمتی گلاب کا پھول لا کر دے دو ۔ پری نے گلاب کا پھول لا کر دے دیا ۔مومو بہت خوش ہوئی اور گھر کی طرف روانہ ہو گئی ۔گھر پہنچی تو اس نے گلاب کے پھول کا رس نکال کر اپنی بہن ٹوٹو کو پلایا ۔چند دنوں بعد ٹوٹو بلکل ٹھیک ہو گئی ۔مومو نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا گیا ۔اس کہانی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہر کام ممکن ہے اگر انسان اس کام کو کرنے کا پختہ ارادہ کر لے ۔