---Advertisement---

Shehzadi ka Lebas in Urdu Story Princess dress in urdu story

Published On:
---Advertisement---

Shehzadi ka Lebas in Urdu Story

The Urdu story “Shehzadi ka Lebas” is a masterpiece of contemporary literature, penned by the renowned author Faiz Ahmed Faiz. This captivating tale is a testament to the power of the Urdu story, delving into the complexities of human emotions, love, loss, and longing. Through “Shehzadi ka Lebas”, Faiz skillfully explores the inner world of his protagonist, laying bare the struggles and triumphs that shape his journey, making this Urdu story a timeless classic.

 

At its core, the Urdu story “Shehzadi ka Lebas” is a poignant exploration of the human heart, cementing its place as a landmark in Urdu literature. Faiz’s masterful storytelling weaves a tale that is both deeply personal and universally relatable, making “Shehzadi ka Lebas” a beloved Urdu story among readers. As a result, this Urdu story continues to captivate audiences, inspiring new generations of readers and writers alike with its thought-provoking narrative.

 

The Urdu story “Shehzadi ka Lebas” remains a cherished favorite among literary enthusiasts, thanks to its timeless themes and masterful storytelling. Faiz’s writing has ensured that this Urdu story continues to resonate deeply with readers, challenging us to rethink our understanding of the world around us. If you haven’t already, immerse yourself in the enchanting world of “Shehzadi ka Lebas” and discover why this Urdu story remains a celebrated classic in the world of Urdu literature, showcasing the beauty and power of the Urdu story.

شہزادی کا لباس ۔

 

ان دنوں نور محل کے نور میں جیسے چاند کی ساری چاندنی اور اجالا بھی سمو دیا گیا تھا ۔ محل کے سارے حجروں اور در بار عام اور دربار خاص سے لے کر مہمان سرائے تک عجیب سی چہل پہل اور رنگ و بودکا منظر تھا ۔ وجہ بادشاہ منیر کی اکلوتی لڑکی شہزادی نور کی شادی تھی ۔بادشاہ منیر نے سندر نگر سے آگے پیچھے کی تمام بستیوں میں بسنے والے اپنے دور پریت کے رشتہ داروں کو پیغامِ بھجوا دیا تھا ۔ مہمانوں کی آؤ بھگت اور خدمت کے لئے وزیروں کو چوکس کر دیا گیا ۔کنیزوں خادموں کی ڈیوٹی پہلے سے زیادہ سخت کر دی گئی ۔اناج اور گندم کی بوریاں شاہی رسوئی میں اکٹھی ہونے لگیں ۔ نور محل کے لیے گوشت مچھلی ،،دودھ گھی چینی سویاں ، سوجی ، انڈے وغيرہ بھی وقت سے پہلے وافر مقدار میں شاہی رسوئی کے سپرد کر دئیے گئے ۔ اب نت نئے پکوانوں سے خاطر تواقع میں مہمانوں کی تو کوئی کمی نہ ہوتی تھی ۔ لیکن اگر کوئی کمی تھی بھی تو وہ شہزادی کے لباس میں تھی ۔جی ہاں شہزادی نور کا عروسی جوڑا جس کی تیاری آٹھ ماہ قبل ہی شروع ہو چکی تھی ۔اور جب کہ شادی میں فقط پندرہ بیس روز باقی تھے ۔جوڑا سینے پرونے والیوں کی پھرتیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں ۔اب بھی شاہی محل کے خاص درزی اور درزن نور محل کے برآمدے میں بیٹھے ہوئے سوئی دھاگے تھامے ٹانکے لگانے میں جتے ہوئے تھے کہ شہزادی نور کے آنے کا اعلان ہوا ۔شہزادی نور تشریف لا رہی ہیں ۔خراماں خراماں چلتی شہزادی اپنا لباس دیکھنے آ رہی تھیں ۔وہ جیسے ہی وہاں پہنچیں جیسے سب درزیوں کی چلتی ساس تھمنے لگیں ۔ وہ نہایت باریک بینی سے ایک ایک چیز کا مشاہدہ اور تجزیہ کر رہی تھیں ۔ اُن کے ہاتھ میں سرخ رنگ کا دوپٹہ تھا ۔جس پر سات آٹھ لڑکیاں سونے کی تاروں کی کناری سے پھول بنا رہی تھیں ۔ آخر شہزادی کی کھوجتی ہوئی نظروں کے سامنے ایک نقص آ ہی گیا ۔یہ کیسی کناری لگائی ہے تم نے یہ دیکھ یہ پھول ابھی سے اُدھڑنے لگا ہے ۔ اس کی سلائی کچی ہے پکّا کرو اسے ۔شہزادی نے کھنکتی ہوئی آواز میں کہا ۔اور تم ،تم یہ کیا کر رہی ہو میں نے یہاں چاندی کے نگ ستارے لگانے کے لیے کہا تھا اور تم ہو کہ سارا سونا بھرے جا رہی ہو اتارو اسے اور چاندی کے نگ ستارے موتی لگاؤ ۔شہزادی نے دوسرا حکم صادر کیا ۔اس لڑکی کو جو جوڑے کے دامن پر نگوں ستاروں موتیوں کی بھر مار کئے جا رہی تھی ۔ اُنھوں نے اسے ٹوکا ۔ درزیوں کی تو جیسے جان سولی پر لٹکی ہوئی تھی ۔ سب کو کوئی نہ کوئی حکم صادر کرنے کے بعد وہ اب وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور اُنھوں نے دوبارہ سے وہی اعلان کیا جو لباس کی تیاری کے اول روز سے لے اب تک ہمیشہ سے کرتی آ رہی تھیں ۔ میں شہزادی محل کی اکلوتی شہزادی ہوں میں چاہتی ہوں کہ شادی کے دن میرا لباس سب دیکھتے رہ جائیں اس کے لئے ضروری ہے کہ تم لوگ محنت اور جان پریشانی سے کام کرو اس کی اجرت میں تم سب کو انعام ضرور ملے گا لیکن صرف اس صورت میں کہ جب یہ لگا میرے شایان تیار ہو تمام درزیوں نے اعلان سنا اور دوبارہ سے اپنے کام میں جت گئے شہزادی نور اب جا چکی تھی دوسری جانب مہمان سرائے میں مہمانوں کی امد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا خوشبو اور لذت سے بھرے کھانوں سے مہمانوں کی خاطر تواضع کا سلسلہ بھی جاری تھا شام کی سیر اور چہل کا دھوئیں کے لیے جب مہمانوں کا ٹولہ نکلتا تو ساتھ ہی ساتھ ان کا خیال رکھنے کے لیے غلام بھی ہوتے بابوں کی سیر کی جاتی ام توڑے جاتے ہیں سیب اور سنگتروں سے لطف اندوز ہو جاتا مہمان یوں ہی اٹکیریاں کرتے میں ہلکی طرف لوٹتے تو موسیقی کی محفلیں شام کی چائے کے بعد سج جاتیں ۔شہزادی نور مہمان خاص ہوتی وہ جس کلام کی فرمائش وہی سنایا جاتا سنانے والے کو تحفے میں دیا جاتے ہیں یومیہ فضول خرچیوں پر بادشاہ منیر کی تجوریاں دھیرے دھیرے خالی پڑھنا شروع ہو گئی تھی جہاں پر بھی تخت و تاج کا چہرہ سجاتے بادشاہ منیر نے یہ عہد کیا تھا کہ اس کے دور سلطنت میں رعایا خوشحال ہوگی اج وہ عہد کمزور پڑتا دکھائی دے رہا تھا اور اس کی سب سے بڑی وجہ شہزادی نور کی شادی پر کی جانے والی فضول خرچی تھی سب سے بڑھ کر شہزادی کے عروسی لباس پر کروڑوں روپے لگائے جا چکے تھے اس کے پیچھے شہزادی کی ایک ہی خواہش تھی کہ وہ سب سے الگ اور خاص نظر آئے وہ اس جوڑے کو دکھا کر چاند محل کے باسیوں پر اپنی دولت کی دھاک بٹھانا چاہتی تھی لیکن ان تمام تیاریوں کے درمیان رعایا سے غفلت برتی جا رہی تھی انہیں ان کا حق نہیں دیا جا رہا تھا ۔محل کے وزراء سے بادشاہ تک سب اپنی ہی خوشیوں میں مگن تھے اور یہ حقیقت فراموش کر چکے تھے کہ یہ حکومت انہیں عیش و آرام کی لیے نہیں رعایا کی خدمت کے لیے ملی ہے دن یوں ہی گزرتے گئے شہزادی کے لباس پر یوں ہی فراوانی کے ساتھ پیسہ بہایا جاتا رہا اور بادشاہ منیر کی تجوری جو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کی جاتی تھی يوں ہی خالی ہوتی جا رہی تھی اُدھر چاند محل میں معاملہ بالکل الٹ تھا . شہزادہ شہزادہ اور اس کے ایک دل والدین اپنے اکلوتے شہزادے کی شادی کی خوشی میں بھی یہ بات یاد رکھے ہوئے تھے کہ یہ دولت ان کی اپنی نہیں بلکہ عوام کی ہے اور اس لیے چاند محل میں ہر معاملے میں اعتدال سے کام لیا گیا تھا مہما نوں کی خاطر تو ازیہ کے لیے بھی وہی پک رہا تھا جو عام دنوں میں محل کے لوگوں کے دسترخوان کی زینت بنتا تھا محل میں تعینات وزیر کنیزیں شادی کی خوشی میں کئی س درہم دینار مستحقین کے درمیان تقسیم کر رہے تھے شادی کے دن کہنے والے عروسی لباس پر اس نے بہت کم خرچہ کیا جبکہ کنیزوں اور خادموں کے لیے نئے ملبوسات تیار کروائے ان کے گھروں میں راشن ڈلوایا اور خاص طور پر خوشی کے موقع پر اپنے لوگوں کو یاد رکھا ۔ غرض کہ شہزادے نے خاطر خواہ خرچہ خود سے زیادہ اپنے غلاموں پر کیا ۔ اِدھر شہزادی کے لباس کے مکمل ہونے تک سارا سونا ختم ہو چکا تھا ۔ چاندی بھی ختم ہونے کے قریب تھی ۔گندم اور اناج کے سارے گودام خالی تھے ۔چاول کے کنستروں میں چاول نا ہونے کے برابر تھے ۔ اس طرح کی دوسری چھوٹی موٹی اشیائے خور و نوش بھی اختتام یک طرف گامزن تھیں ۔ مختصر یہ کہ دونوں محلوں کا ماحول ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھا ۔وہ وقت بھی آن پہنچا کہ جب شہزادی ناور کو رخصت ہو کر نور محل سے چاند محل جانا تھا ۔ بارات ببیندّ باجوں کے ساتھ نور محل کے دروازے پر آئی تو نور محل کے غلام ہاتھوں میں گلاب کی پتیوں کے تھال لیے ان پر نچھاور کرنے لگے ۔ شہزادے نے انتہائی باریک بینی سے ہر ایک شے کا مشاہدہ کیا اور پہلی بار بادشاہ منیر بھی ڈگمگا گیا ۔جب اس نے شہزادے کے غلاموں کی خوشحالی اور خوش لباسی کا جائزہ لیا ۔ اس کے آگے ان کے غلاموں نے چیتھرے نما کپڑے پہن رکھے تھے ۔ ان کے انگ انگ سے یہ بات عیاں تھی کہ وہ کس قدر تھکے ہوئے نڈھال ہیں ۔ شہزادے کے غلام ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے جب کہ بادشاہ منیر کے غلاموں ملازموں کے چہرے کملائے اور مرجھائے ہوئے تھے ۔ بادشاہ نے شہزادے کو بیش قیمت تحفے پیش کیے اور یہ خوشخبری بھی سنائی کہ شہزادی سے شادی کے بعد ریاست کے اگلے بادشاہ کا اعزاز بادشاہ کو مل جائے گا ۔ اس بات پر شہزادے نے نرمی سے بادشاہ کو جواب دیا ۔ بادشاہ سلامت آپ اس ریاست کے حکمران ہیں ۔ مگر جب سے میں یہاں آیا ہوں مجھے سو رہا ہے کہ اس ریاست پھر ایا خوش نہیں میری خواہش ہے کہ اپ انتہائی کو رائے سے کر دیں مجھے لے ایا کہ خوشی اور سکون کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے دل میں بہت شرمندہ ہوا تو اسے حساس ہوا کہ شہزادے کی خوشی قیمتی چیزوں سے نہیں بلکہ ان کی خوشحالی اور فلاح و بہبود سے ہے اسی وقت اعلان ہوا شہزادی نور تشریف لا رہی ہیں اور جب شہزادی نور نے مہر کے خاص پرواہ میں قدم رکھا تو شہزادے کی انکھیں چھندیا گئی اسے حیرت ہوئی کہ شاہ اور شہزادی لیا ہے کی بجائے خود خرچ کرنا پسند کرتے ہیں شہزادےکی لائی گئی مٹھائی س کا منہ میٹھا کرایا گیا بتاشے اور چوہارے بانٹے گئے اور شہزادی رخصت ہو کر چاند محل اگئی چاند محل ا کر شہزادی کو احساس ہوا دولت اور قیمتی ملبوسات سے پوری دنیا کو مرعوب کرنے کا خیال اس کی بھول تھی کیونکہ چاند اہل کے رہنے والوں کی زندگی کا اصل مقصد رعایا کی خدمت ہے کچھ عرصے بعد اسے اطلاع ملی کہ ان کی ریاست میں قہت کا سماں پیدا ہو گیا ہے عوام بھوک سے نہ ڈال ہیں اور شاہی خزانہ خالی ہو چکا ہے یہ سب سن کر اسے بہت دکھ ہوا اور اس نے دل میں اپنی ریاست اور عوام کے لیے کچھ کر گزرنے کی ٹھان لی شہزادی کو یقین ہو گیا تھا کہ اصل خوشی اپنے لوگوں کے لیے نیکی کے کام انجام دے کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے اس نے شہزادے کے سامنے اپنی حماقت اور خود غرضی کا اقرار کر لیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنا عروسی لباس بیچ کر اس سے حاصل ہونے والی رقم ان لوگوں کی خدمت میں پیش کر دینا چاہتی ہے جن کا اس پر حق ہے اور وہ شہزادی جو صرف اپنے ایک لباس پر ی خزانہ خالی ہو جانے کی پرواہ بھی نہیں کرتی تھی اپنی رعایا کے لیے اپنا خاص لباس فروخت کرنے پر تیار ہو گئی ساتھیو اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ فضول خرچی کرنے سے ہر وقت بچنا چاہیے کیونکہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ جو ہوتا ہے اس پے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے لہذا فضول خرچی سے ہر ممکن انداز میں بچنے کی کوشش کریں اور قیمتی سامان سے لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش ترک کر دیں کیوں دل جیتنے کی اصل طاقت ہو تو محبت اور خدمت میں چھپی ہے

---Advertisement---

Leave a Comment