---Advertisement---

Shadi Me Rukawat Horror Story in Urdu

Published On:
---Advertisement---

Shadi Me Rukawat Horror Story in Urdu

The Urdu Horror Story “Shadi Me Rukawt” is a masterpiece of contemporary literature, penned by the renowned author Muhammad Fayyaz. This captivating tale is a testament to the power of the Urdu Horror Story, delving into the realm of the supernatural and exploring the darker side of human experience. Through “Shadi Me Rukawt”, Fayyaz skillfully weaves a chilling narrative that showcases the best of Urdu storytelling, making this Urdu Horror Story a beloved classic among readers.

 

At its core, the Urdu Horror Story “Shadi Me Rukawt” is a gripping exploration of fear, superstition, and the unknown, cementing its place as a landmark in Urdu horror literature. Fayyaz’s masterful storytelling brings to life the world of his protagonist, a young couple navigating the treacherous landscape of a haunted wedding, making “Shadi Me Rukawt” a standout tale in the world of Urdu Horror Stories. As a result, this Urdu Horror Story continues to captivate audiences, inspiring new generations of readers and writers alike.

 

The Urdu Horror Story “Shadi Me Rukawt” remains a cherished favorite among literary enthusiasts, thanks to its masterful storytelling and chilling narrative. Fayyaz’s writing has ensured that this Urdu Horror Story continues to resonate deeply with readers, showcasing the power of Urdu storytelling to evoke emotions and spark imagination. If you haven’t already, immerse yourself in the haunting world of the Urdu Horror Story “Shadi Me Rukawt” and discover why this tale remains a timeless classic in the world of Urdu literature, with “Shadi Me Rukawt” being a must-read for fans of the genre.

شادی میں رکاوٹ 

پہلےبھی گوش گزار کر چکا ہوں کہ عملیات کی وجہ سے ذندگی میں عجیب غریب واقعات دیکھنے سننے کو ملتے رہتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے مجھے ایک جاننے والے کی فون کال آئی کہ میرے بیٹے جس کی منگنی کچھ دن پہلے ساتھ والے شہر کی ہے نے آپ کا ذکر اپنے سسرال میں کیا تھا تو ان کے گھر کوئی مسلہ ہے تو میں آپکو لے کرجانا چاہتا ہوں تو میں نے جانے کی ہامی بھر لی ۔ اگلے دن علی الصبح وقت مقررہ پر وہ گاڑی لیکر آ گئے میں تیار بیٹھا تھا اللہ کا نام لیکر ہم نے اپنا سفر شروع کر دیا ۔ سفر شروع ہوتے ہی حال احوال کے بعد وہ کہنے لگے کہ مسلہ یہ ہے کہ میری بہو کی بڑی بہن ہے کافی سالوں سے اسے آسیب ہے اسی کیلے ہم جا رہے ہیں۔ میں نے ان سے پو چھا کہ اسے آسیب ہی ہے یہ آپ کیسے جانتے ہیں ۔ تو وہ بولے کہ نا تو وہ کھانا کھاتی ہے نا کسی کو ملتی ہے الگ اپنے کمرے میں خود کو بند رکھتی ہے خیر باتیں سن کر مجھے ایسا کچھ نہیں لگ رہا تھا کہ مریضہ آسیب کا شکار ہو اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مریض جان بوجھ کر گھر والوں کو تنگ کرتے رہتے ہیں ایسے مریضوں کے ڈرامے اور انکے گھر والوں کی مجبوری سے جاعلی عامل اور پیر بہت فائدہ اٹھاتے ہیں خیر اس طرح کےمریض ہمیشہ میری اکتاہٹ اور بیزاری کا سبب بنتے ہیں اور میں اس کے گھر والوں کو لازمی کہ کراٹھتا ہوں کہ میرا وقت برباد کرنے کا شکریہ آپ کے مریض کوایسا کچھ نہیں۔ خیر باتیں کرتے کرتے ہم ساتھ والے شہر پہنچ گئے تھوڑی دیر تک ہم ایک بڑی کوٹھی کے گیٹ پر تھے ہارن کی آواز سن کر دروازہ کھولا گیا پورچ میں ہم اترے تو ہمارا استقبال ایک باریش سفید داڑھی والے بزرگ نے کیا ڈرائنگ روم میں پہنچے تو دو تیں اور گھر کے افراد آ ملے اور ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گئے چاے اور ناشتہ آ گیا اس سےفارغ ہو کر وہی بزرگ بولے کہ آپ کو تکلیف اس لیے دی ہے کہ میری پوتی جو کہ بہت ہی ذہین تھی بچپن سے ہر کلاس میں پہلی دوسری پوزیشن لیتی آئی ہے اسکی ذہانت اور شوق کی وجہ سے اسے میڈیکل میں داخلہ دلوا دیا وہ بہت خوش تھی اور دل لگا کہ پڑھ رہی تھی میڈیکل کے تیسرے سال اسے چند دن کی چھٹیاں تھیں وہ بہت خوش خوش واپس آئی تھی مگر چند دن گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ ہم سب نے محسوس کیا کہ وہ خاموش رہنے لگ گئی ہے ۔ اسی اثنا میں بچی کا والد بولا میں نے اس کی ماں سے کہا کہ تم اس سے پوچھو کیا مسلا ہے بہت پوچھا مگر اس کا ایک ہی جواب کہ کچھ نہیں کچھ نہیں بچی نے خود کو کمرےتک محصور کر لیا کھانے کا کہا جاتا تو کھا لیتی نا کہیں تو نا کھاتی رات کو کواگر اس کے کمرے میں کوئی جاتا تو اس کو جاگتے پاتا چھٹی کے آخری دن اس نے پڑھنے سے انکار کر دیا اسکی کیفیت دیتے ہوے ہم نے بھی زبردستی نا کی فیملی ڈاکٹر سے ٹائم لیا گیا اس نے نفسیاتی معالج کے پاس جانے کا مشورہ دیا نفسیاتی معالج نے کچھ سوال کیے بچی نے بس ایک ہی جواب دیا کہ میرا دل نہیں لگتا ڈاکٹر نے بے آرامی کیبوجہ سے ایسا ہو رہا ہے کہ کر نیند کی دوائی تجویز کر دی جب کسی ڈاکٹر کےپاس جانا ہوتا وہ ایک بارکہنے پہ ہی تیارہو جاتی ایک بات ہم نے نوٹس کی جس کی وجہ سےہمیں لگا کہ شائد کوئی آسیبی مسلا ہے جب بھی اس کے کمرے میں کوئی جاتا اس کو کپڑوں کی الماڑی جو کہ لکڑی کی ہے اسکی طرف دیکھ کر ہنستا ہوا پاتا مگر آنے والے کو دیکھ کر خاموش ہو جاتی اس لیے جو ہمارے پیر صاحب کی وفات کے بعد جو انکے خلیفہ ہیں انکو بلایا گیا انہوں یہ کہ کر اس پہ جادو ہے کچھ تعویذ دئے اور چلے گئے اس کے بعد کافی سارے عمال بلواے گئے سب نہ یہ کہا کہ اس ہر جادو ہے اس لیے ایسا کر رہی ہے جب سے یہ تعویذوں سے علاج شروع کیا ہے اس نے بلکل ہی کمرے میں خود کو بند کر دیا ہے اور جب بھی اس کے کمرے میں جائیں اسے گھٹنوں میں منہ چھپاے آنسو بہاتے ہوے دیکھتے ہیں اس بات کو دو سال سے اوپر کا عرصہ گزر چکا ہے۔اس کے چپ ہونے کے بعد اس کی بیوی بولی. اگر آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں تو آپ کا یہ احسان ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ میں نے ایک کاغذ پینسل منگوانے کو کہا اور بچی کا مکمل حساب کر کہ دیکھا تو نا کوئی نفسیاتی بیماری نکلی اور نا ہی جادو ٹونہ اگر نکلا تو آسیب کا اثر ۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا مجھے مریضہ کے پاس کمرے میں لے چلیں بچی کے دادا اور والد مجھے ساتھ لے کر بچی کے کمرے تک پہنچے اس کے والد نے کمرے کا دروازہ کھول کواندر داخل ہو کر مجھے اندر آنے کو کہا میں اندر داخل ہوا میری نظر بیڈ پر گھٹنوں میں منہ چھپاے بیٹھی لڑکی پر پڑی میں نے سلام کیا تو لڑکی نے منہ اوپر اٹھا کر میری طرف دیکھ کر سلام کا جواب دیا اور اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔ بیڈ کے ہس رکھے صوفہ پر بیٹھنے کے بعد میں نے کہا بیٹا کیسی ہو آپ وہ بولی میں ٹھیک اس کے مختص سا جواب سن کہ میں نے کہا کہ مجھے یہاں اس لیے بلوایا گیا ہے کہ میں یہ جان کہ بتا سکوں کہ آپ کو مرض لگ گیا ہے دو سال سے آپ نے خود کو الگ تھلگ کر لیا ہے پڑھائی بھی چھوڑ دی ہے سب آپ کی وجہ سے پریشان ہیں اور مجھے تو لگتا ہے آپ خود پریشان اور اداس ہیں ۔ وہ بولی انکل آپ نہیں جان سکتے کہ میں کیوں پریشان ہوں اور نا ہی آپ میری اداسی کی وجہ جان سکتے ہیں میں نے کہا اگر میں اداسی کی وجہ تھوڑی سی بتا دوں تو کیاآپ مجھے اپنا سارا حال بتا دیں گی اس نے جی بتا دونگی ۔ لڑکی کے والد اور دادا دونوں خاموش بیٹھے گفتگو سن رہے تھے ۔لڑکی میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔میں نے کہا کہ نا تو آپکو کوئی نفسیاتی مسلہ ہے اور نا ہی تعویذ ۔ مسلا یہ ہے کہ آپ نے کسی ایسی مخلوق کو دیکھ لیا ہے جو بھلائی نہیں پائی جا رہی میری بات سنتے ہی لڑکی چونک گئی اور رونے لگی اور میں نے اسے کہا کہ میں اسوقت ہی کچھ کر سکتا ہوں جب تک مجھے ساری بات کا پتہ چلے گا ۔ لڑکی نے کہا کہ میں جب چھٹیوں میں واپس آئی تو گھر والوں سے مل جل کر اپنے کمرے میں آکر میں کچھ سامان رکھنے لگی تو کمرے میں اچانک بہت پیاری اور مسحور کن خوشبو پھیل گئی میں حیران ہو گئی کہ یہ خوشبو کہاں سے آ رہی ہے میں نے یہی سوچا کہ شائد باہر ہال کمرے میں گھر کے کسی فرد نے کوئی پرفیوم لگایا ہے اور شائد اسی کی خوشبو ہے کچھ دیر بعد خوشبو کا آنے کا احساس ختم ہو گیکا میں نے شاور لیا اور کچھ دیر سونے کی کوشش کرنے لگی آنکھیں بند کیے کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ مجھے احساس ہوا کہ کمرے میں کوئی ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا کوئی نا تھا میں سو گئی شام کو امی نے اٹھایا میں فریش ہو کر باہر ہال میں چلی گئی جاتے ہی میں نے بھائی سے پو چھاطکہ کونسا پرفیوم لگایا تھا تو اس نے نے کہا آج تو کوئی نہیں لگایا بہن سے پوچھا داداابو سے پوچھا شائد انہوں نے کوئی عطر لگایا ہو مگر سب نے انکار کر دیا رات کا کھانا وغیرہ کھا کر میں جلدی اٹھ کر اپنے کمرے آگئی میں نے الماری کھولی اور اپنے کپڑے بیگ سے نکال کرالماری میں رکھنے لگی کہ اچانک دوبارہ سے وہی خوشبو کمرےمیں پھیل گئی میں حیران تھی کہ یہ خوشبو کہاں سے آرہی ہے اتنی مسحور کن خوشبومیں بتا نہیں سکتی میں بیٹھ گئی اور آرام آرام سے ناک سے سانس لینے لگی میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اس خوشبو کو اپنے اندر سما لوں آہستہ آہستہ تھوڑی دیر بعد خوشبو آنی بند ہوگئی میں اٹھی اور نےکپڑے الماری میں دوبارہ رکھنا شروع ہوگئی کپڑے رکھ کر میں واپس مڑی تو میری نظر بیڈ پر پڑی اس پر ایک تہہ شدہ کاغذ پڑا تھا ۔ میں نےوہ کھولا تو اس پہ اسلام علیکم لکھا تھا میں حیران تھی کہ یہ کہاں سے آیا ہے میں نے اسے کمرے میں پڑی ڈسٹ بن میں پھینک دیا کچھ دیرمصروف رہنے کے بعد میں سو گئی رات کے کسی پہر میری آنکھ کھل گئی میں نے کروٹ بدلی اور کروٹ بدلتے ہی میرا ہاتھ ایک کاغذ پر پڑا میں نے اٹھ کر لائٹ جلائی کاغذ کھولا اس پہ پہ لکھا تھا آپ نے سلام۔کا جواب بھی نہیں دیا اور اسے ردی سمجھ کر پھینک بھی دیا میں یہ پڑھ کر حیران و پریشان تھی مجھے یاد تھا کہ اس سب کے دوران میرے کمرے میں کوئی نہیں آیا تھا اچانک میرے ناک سے وہ مخصوص خوشبو ٹکرائی میرے لیے یہ سب بہت عجیب تھا اچانک میری نظر میرے پاوں کے پاس پڑے ایک اور کاغذ پر پڑی میں نے وہ اٹھایا اس پہ لکھا تھا یہ سب آپ کے لیے پریشان کن ہے مگر میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں مجھے آپ اچھی لگتی ہیں ۔میری حیرانی اب تجسس میں تبدیل ہو رہی تھی میری جگہ اور کوئی ہوتا تو شائد کب کا کمرے سے ڈر کر بھاگ چکا ہوتا مگر وہ خوشبو ایسی میرے دل و دماغ کو مسحور کر رہی تھی کہ مجھے خوف کا احساس تک نا تھا۔میں نے کہاآپ کون ہیں میرا اتنا کہنا تھا کہ کہ ایک کاغذ میری جھولی میں آ گرا اس پہ لکھا تھا آپ کا خادم ۔میں نے کہا میرے سامنے آو ایک اور کاغذ میری جھولی میں آ گرا جس پہ لکھا تھا کہ نہیں آ سکتا ۔ مختصر یہ کہ میری اور اسکی بقیہ ساری رات اسی طرح باتیں ہوتی رہیں اس کا کہنا تھا کہ وہ ایک جن ہے اور اسے میری آنکھیں اور بال بہت پیارے لگتے ہیں جب صبح ہوئی تو وہ یہ کہ کر چلا گیا کہ جلدی واپس آتا ہوں وہ تو چلا گیا ساتھ ہی خوشبو بھی اور مجھے یوں لگا جیسے میں اکیلی رہ گئی ہوں پھر وہ دو دن نہیں آیا میں ان دو دنوں بہت بے چین رہی مجھے کچھ اچھا نا لگتا تھا جب دو دن بعد میرے کمرے میں خوشبو پھیلی تو مجھے یوں لگا جیسے مجھے کل کائنات کی خوشیاں مل گئی ہوں میں جب بھی بولتی جو سوال کرتی اس سے کا جوب مجھے کاغذ پر لکھا مل جاتا میری ایک ہی تکرار ہوتی کہ میں آپ کو دیکھنا چاہتی ہوں اور انکا ایک ہی جواب کہ ایسا ممکن نہیں میں اس دوران کمرے تک۔محدود رہ گئی تھی جب وہ موجود ہوتے میں کمرے کو بند کر دیتی جب وہ چلے جاتے میں ان کی باتوں اور یاد میں کھوئی رہتی جب انکا کوئی کاغذ مجھے ملتا اس سے پہلے والا کاغذ غائب ہو جاتا ایک دن مجھے کاغذ پر لکھا ملا کہ تمھارے گھر والے تمھارے کمرے تک محدود ہو جانے کی وجہ سے پریشان ہیں اور وہ تمھیں ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہ رہے ہیں وہ تمھارا جو علاج کروائیں خاموشی سے سے کروا لینا ۔ میں نے ہامی بھر لی ۔ ایک دن میں نے ان سے کہا کہ کہا کہ آپ کو میری قسم میرے سامنے آئیں مجھےے جواب ملاکہ اگر میں نے ایسا کیا تو دو مشکلیں بن جائیں گی میرے خاندان والوں کو پتا چل جاے گا میں آپ کے سامنے ظاہر ہوا ہوں میرے لیے پابندیاں بڑھ جائیں گی اور دوسری مشکل یوں آپ مجھے کبھی بھول سکتیں ہیں مگر مجھے دیکھ لیا تو کبھی نہیں بھول پائیں گی ۔ یہ جواب پڑھ تو میں نے لیا مگر میں سمجھ نا سکی میں اپنی بات پہ اڑی رہی ہار مانتے ہوے انہوں نے کہا کہ آنکھیں بند کرو میں نے خوشی سے آنکھیں بند کر لیں میرے کانوں میں ایک انتہائ دبدبے والی بھری بھری آواز آئی کہ آنکھیں کھولیں میں نے دھڑکتے دل سے آنکھیں کھولیں میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں میرا دل چاہ رہا تھا کہ وقت رک جاے اور یہ لمحہ قید ہو جاے اتنی خوبصورت شکل میں نے ذندگی میں نہیں دیکھی میں بیان کرنے سے قاصر ہوں اسی لمحے کچھ عجیب سا ہوا میں میرے کمرے میں دھواں بھرنا شروع ہوگیامیں نے نے ان کے چہرے پر بے حد پریشانی دیکھی اور اچانک وہ میری نظروں سے غائب ہو گئے میں پریشانی اورافسردگی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی مگر وہ جا چکے تھے دھواں بھی اچانک سے غائب ہو گیا اس واقعہ کے کئی دن بعد تک میرا رابطہ نا ہوا میری مانو جیسے دنیا لٹ گئی ہو میں نے خود کو کمرے میں بلکل بند کر دیا میں اپنی نادانی پہ سارا دن روتی رہتی میں نے گھر والوں کو کالج جانے سے منع کر دیا کئی ہفتہ گزر گئے ایک رات میں بیٹھی رو رہی تھی کہ اچانک انکی آمد کی خوشبو کا اجساس ہوا میں چونک کرخوشی سے ادھر ادھردیکھنے لگی مجھے خوشبو آ رہی تھی میں انکا نام پکارنے لگی مگر مجھے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا کئی منٹ گزر گئے اب میری خوشی بے چینی اور پریشانی میں بدل چکی تھی میں کافی دیر انکا نام لے لے کر پکارتی رہی مگر جواب نا ملا اب اچانک خوشبو کا احساس آنا کم ہو گیا خوشبو آ تو رہی تھی مگر بہت کم اچانک میری نظر بیڈ کے سائڈ ٹیبل پر پڑی وہاں ایک کاغذ پڑا تھا میں نے جلدی سے اسے اٹھا کر کھولا اس پر لکھا تھا میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے سامنے آنے سے میرے لیے پریشانیاں بڑھ جائیں گی میری قوم کو اسی وقت میری اس حرکت کا پتا چل گیا تھا اب فیصلا یہ ہوا ہے کہ اب کبھی اگر میں نے آپ سے رابطہ رکھا تومیرے ساتھ آپ کو بھی سزا ملے گی اور میں یہ نہیں چاہتا آخری سانس تک آپ کو یاد رکھوں گا مگر آپ مجھے بھول جانا میری خوشبومیرے اس آخری پیغام سے ہمیشہ آتی رہے گی ۔ اللہ حافظ اس رقعہ کو پڑھکر میری دنیا ویران ہو گئی میرے گھر والے مجھے جب کسی علاج کا کہہ دیتے ہیں میں چپ کر کہ کروا لیتی بہت لوگ آے سب نے اپنی اپنی باتیں کی آپ پہلے انسان ہیں جنہوں نے سچ بتایا یہ کہ۔کر وہ لڑکی خاموش ہو گئی اس کے والد دادا اور میں سب خاموشی سے سن رہے تھے ۔اس کے کے چپ ہونے پہ لڑکی کے والد نے آگے بڑھ کر اس کے سینے سے لگا لیا میں نے اس لڑکی سے وہ خط لانے کو کہا لڑکی اٹھی اور الماری سے ای کپڑا لپٹا ہوا لے آئی کپڑا کھول کر اس میں سے ایک کاغذ نکالا اور میری طرف بڑھا دیا پورا کمرا عجیب سی بھینی بھینی خوشبو سے مہک اٹھا کیا بتاوں کیا خوشبو تھی جیسے صندل عنبر عود کستوری کو کسی نے ایکساتھ رکھ دیا ہو خوشبو نے دماغ تک معطر کر کے رکھ دیا اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی خوشبو کاغذ سے ہٹہی نا تھی خوشبو کی سحر انگیزی میں میں نے وہ کاغذ کھول کر پڑھا جس پر ہو بہو ویسی تحرہر تھی جیسا لڑکی نے بتایا تھا میں نے خط پڑھ کر کاغذ واپس لڑکی کو دیا اور کہا کہ اس مسلےکا ایک ہی حل ہے کہ یہ واقعہ آپکو بس اتناہی یاد رہ جاے جیسے بچپن کی ایک حسین یاد اور آپ واہس نارمل ذندگی کی طرف لوٹ آئیں ۔مختصر یہ کہ کچھ دن اس بچی کا روحانی علاج کیا گیا اللہ پاک کا کرم ہوا بچی کی طبیعت آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتی گئی اس واقعہ کے کچھ ہفتہ بعد بچی کی مجھےکال آئی اس نے کہا کہ میں آج اپنے ابو کے ساتھ نہر پر جا کر وہ خط بہا دیا ہے۔مجھے یہ سن کر بے حد خوشی ہوئی۔اب اس لڑکی کی شادی ہو چکی ہے اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ بہت خوش ہے ایک بات بتاتا جاوں آج تک میں وہ خوشبو نہیں بھول سکا نا بھول پاوں گا۔

---Advertisement---

Leave a Comment