Saanp Horror Story in Urdu
Saanp: Ek Horror Story
Saanp ek ajeeb sa horror story hai, jo ki ek sachchi dastan par basee hai. Yeh dastan ek chhote se gaon ki hai, jahan par ek ladka tha, jis ka naam Ahmad tha. Ahmad ek ajeeb sa ladka tha, woh hamesha apne gaon ki purani dastanen sunta tha. Ek din, Ahmad ko ek purani dastan sunne ko mili, jis mein ek ajeeb sa saanp ke baare mein bataya gaya tha. Horror story in Urdu Saanp ki dastan sun kar logon ko bohot dar laga.
Ahmad ne yeh dastan sun kar socha, “Kya yeh saanp sach mein hai?” Woh is saanp ki talash mein nikal pada. Woh gaon se bahar nikal kar ek sunsaan raah par chal pada. Raah mein woh ek ajeeb sa saanp dekha, jis mein koi bhi nahin tha. Ahmad ko yeh dekh kar bohot dar laga, lekin woh yeh jaanna chahta tha ki yeh saanp ki sachchai kya hai.
Ahmad us saanp ke paas gaya aur dekha ki woh yahan akela nahin hai. Woh yahan par ek ajeeb sa cheez dekha, jis mein ek ladki ki rooh thi. Ahmad ko yeh dekh kar bohot dar laga aur woh yahan se bhag gaya. Woh apne gaon mein wapas aa kar sab logon ko yeh baat batayi. Sab logon ne Ahmad ki baat sun kar us saanp ko chor diya. Horror story in Urdu Saanp ki dastan sun kar logon ko bohot dar laga. Yeh horror story in Urdu Saanp ke naam se mashoor ho gayi. Horror story in Urdu Saanp ek ajeeb sa horror story hai, jo ki ek sachchi dastan par basee hai.
سانپ
میری بھی ایک آپ بیتی ہے ۔ جو آپ سے شئر کرتا ہوں دسمبر کی ایک صبح میں اپنے پاس آئے کچھ مہمانوں کے ساتھ مصروف تھا کہ مجھے ایک کال موصول ہوئی دوسری طرف میرے ایک بہت پیارے تعلق والے شریف صاحب جو کہ نا صرف میرے ساتھ بہت بے تکلف بھی ہیں حالانکہ عمر میں مجھ سے کافی بڑے ہیں اور مجھے بدر پتر ہی کہتےہیں لیکن ان سے میرا رشتہ دوستی کے قریب قریب ہے اس کی وجہ انکی سادہ طبیعت اور دل کی اچھائی ہےشریف صاحب چند ایکڑ کے زمیندار ہونے کے ساتھ ساتھ ماندرہ بھی ہیں ۔ ماندرہ لفظ سے کئی قارئین نا واقف ہونگے بتاتا چلوں کہ سانپ بچھو کے کاٹے کا دم کرنے والے کو ماندرہ کہتے ہیں دیہات میں لوگ آج بھی سانپ بچھو کے کاٹنے پہ ماندروں کے پاس جا کر دم کرواتے ہیں اس ذہر کا دیسی علاج کرواتے ہیں اور اللہ کے کرم سے شفا پاتے ہیں یرے ہیلو کرنے پر شریف صاحب بولے بدر پتر گھر میں ہی ہے نا میں نے کہا جی بلکل گھر ہی ہوں سب خیر تو ہے نا تو بولے سب اللہ کا فضل ہے تو بس گھر رہنا میں کسی کو لیکر ایک گھنٹے تک تیرے پاس آرہاہوں یہ کہ کر ساتھ ہی کال کاٹ دی میں نے اس ایک گھنٹے میں مہمانوں کوفارغ کیا آخری بندہ روانہ ہونے ہی لگا تھا کہ شریف صاحب میرے گھر پہنچ گئے انکے ساتھ ایک مرد اور ایک عورت تھے سلام دعا اور حال احوال کے بعد میں نے سوالیہ نگاہوں سے شریف صاحب کی طرف دیکھا وہ بولے کہ بدر پتر یہ دونوں آج صبح میرے پاس آئے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ سانپ نے کاٹا ہے یا بچھو نے تو کہتےہیں کہ نا سانپ نے کاٹا نا ہی بچھو نے پھر انہوں نے اپنی پریشانی مجھے بتائی تو میں سمجھ گیا کہ یہ معاملہ تمھارے مطلب کا ہے تو انکو لیکر میں تمھارے پاس آ گیا یہ کہہ کر شریف صاحب خاموش ہو گئے میں نے اس آدمی کی طرف دیکھا جو میری طرح خاموشی سے شریف صاحب کی بات سن رہے تھے ا تو انہوں نے کھنکار کر گلہ صاف کیا اور اور بولے کہ میں آپ کو ساری بات تفصیل سے سناتا ہوں میرا نام ربنواز ہے ہم دونوں میاں بیوی ہیں انہوں نے ساتھ بیٹھی خاتون کی طرف اشارہ کیا ہم سے جڑی پریشانی ہمارے دادا ابا کے وقت سے شروع ہوئی میرے والد صاحب میرے دادا ابا کی اکلوتی اولاد تھے ابھی والد صاحب کی عمر دس سال تھی کہ میرے دادا کہ ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہوا اس طرح کہ دادا ابو ایک گاوں میں رہتے تھے اور ایک ذمیندار کے ہاں اس کے جانوروں کو چارہ ڈالنے کی کی نوکری کرتے تھے دادا ابو کا گھر گاوں سے تھوڑا ہٹ کر تھا گھر کے ارد گرد درختوں کے جھنڈ تھے ایک دن اس ذمیندار نے ایک بیمار بھینس تحفہ میں میرے دادے کو دے دی دادا دادی نے اس بھینس کی خوب سیوا کی اللہ کا کرم ہوا اور وہ بھینس ٹھیک ہو گئی بھینس نے دودھ دینا شروع کر دیا تھا گھر دودھ کی اور گھی کی فراوانی ہو گئی تھی ان دنوں کوئی بھی دودھ نہیں بیچتا تھا سب دودھ بیچنا گناہ سمجھتے تھے ۔ ہوا اس طرح کہ ایک دن جب دادی دودھ نکالنے گئی تو بھینس کا دودھ کا ایک قطرہ بھی نا نکلا بھینس کا ہوانہ خالی تھا دادی بہت حیران ہوئی شام کو دودھ نکالا گیا حیرانی یہ کہ اگلے دن پھر صبح دودھ نہیں نکلا اور ہوانہ خالی ۔ دادا دادی شک میں پڑ گئے کہ رات کو شائد کوئی چوری دودھ نکال جاتا ہے اس رات دادا نے رات جاگتے گزاری اور دادے کا شک صیح نکلا سحر سے بھی پہلے دادے نے بھینس کے بولنے کی آواز سنی دادا ابو خاموشی سے بھینس کی طرف بڑھے اندھیرا کچھ ختم ہو رہا تھا دادا ابو نے بھینس کے پاس غور سے دیکھا تو انہیں ایک نوجوان لڑکا بھینس کے پاس بیٹھا نظر آیا دادا ابو تھوڑا اور آگے بڑھے تو دیکھا کہ وہ نوجوان ہوانے سے مونہہ لگاے بھینس کا دودھ پی رہا ہے دادا نے غصہ سے اسے للکارہ دادا ابو کی آواز سنتے ہی وہ نوجوان چونک کر پیچھے ہٹا اور اٹھ کر سرپٹ دوڑ لگا دی اور گھر کی دیوار پھلانگ گیا دادے بے چارے کیلیے یہ سب بہت عجیب تھا خیر دادے ابو نے بات صبح پہ چھوڑ دی کہ صبح زمیندار کو بتا کر گاوں سے اس بندے کو ڈھونڈے گا دادی بھی آواز سن کر اٹھ چکی تھی دادے نے ساری بات اسے بتائی دادی۔بولی اچھا جانے دو کسی بھوکے کا پیٹ بھر گیا یہی بہت ہے ساری رات جاگنے کی وجہ سے دادے کی طبیعت کچھ بہتر نا تھی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے دادا ابو ذمیندار کے گھر نا جاسکے اور کام سے چھٹی کر لی اس دن دوپہر کے وقت گھر کے دروازے کی کنڈی کھٹکی دادا ابو نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک خوبصورت شکل کا نوجوان کھڑا تھا دادے نے اسے پہچان لیا کہ یہ صبح والا ہی نوجوان ہے مگر اس کی خوبصورتی اور آنکھوں کی چمک نے دادے کی ذبان بند کر دی تھی سلام کرنے کے بعد وہ نوجوان بولا کہ میں ایک پردیسی ہوں کچھ دن ادھر رہنے آیا ہوں میرا آپ کے پاس آنے کا مقصد یہ ہے کہ میں تین دن سے آپ کی بھینس کا دودھ پی رہا ہوں میں اس کی اجرت دینے آیا ہوں میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ روز رات کو اپنی بھینس گھر سے باہر درختوں کے جھنڈ کےپاس باندھ دیا کریں اگر آپکو یہ لگے کہ بھینس چوری ہو سکتی ہے تو میں پوری بھینس کی قیمت سے دو گنا ذیادہ قیمت ادا کر رہا ہوں آپ بس بھینس کی خوراک کا خیال رکھیں یہ کہ کر اس نے تین سونے کے سکے دادے کے ہاتھ پر رکھ دئیے اور بولا یہ دودھ اور بھینس کی قیمت ہے اور یہ ایک سکہ اور اس بات کو راز میں رکھنے کیلیے یہ بات تم نے اپنی بیوی کے علاوہ کسی کو نہیں بتانی کسی کو بھی نہیں میں جب یہاں سے جاوں گا تو تمھیں اور بھی انعام دونگااور واپس مڑ کر درختوں کے جھنڈ کی طرف چلا گیا دادا ابو جو حیرانی سے سکے ہاتھ میں پکڑے اس خوش شکل نوجوان کو دیکھ رہے تھےاس نوجوان کے نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد حیرانی بھری خوشی کےساتھ دروازہ بند کر کے واپس مڑے انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ سونے کے یہ چار چمچماتے سکے اب ان کے ہیں انہوں نے ساری بات دادی کو سنائی دادی جو حیرانی اور بے یقینی سے سکوں کو دیکھتے ہوے یہ سب سن رہی تھی خوشی سے بولی کہ سوچ کیا رہے ہو جلدی سے جا کر بھینس کو درختوں کے جھنڈ میں باندھ دو غرض یہ کہ روز شام کے بعد بھینس درختوں کے جھنڈ کےپاس باندھ دی جاتی اور صبح واپس گھر اس بات کو پندرہ دن گز چکے تھے کہ ایک دوپہر دو جوگی بین بجاتے دادے کے گھر کے سامنے آپہنچے اور دروازے کے آگے بیٹھ گئے دادا ابو اس وقت ذمیندار کے گھر گئےہوے تھے دادی نے دروازہ کھول کر جوگیوں کو خیرات دی جوگی دعا دینے لگے ایک جوگی بولا اگر روٹی مل جاے تو بڑی مہربانی ہوگی دادی بولی روٹی تو نہیں پکی میں دودھ لا دیتی ہوں یہ کہ کر دادی اندر سے دو کٹورے دودھ کے لے آئی جوگیوں نے دودھ کا گھونٹ بھرا اور چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا دادی جو پاس کھڑی تھی اس سے ایک جوگی جو کہ عمر رسیدہ تھا بولا پتر تیرے علاوہ گھر میں کون کون رہتا ہے میں چاہتا ہوں تو اس کا نام بتاے تو میں اس کو بھی دعا کر دوں دادی بولی میں۔میرا معصوم۔بیٹا اور شوہر کے علاوہ کوئی نہیں جوگی بولا۔کہ پتر تو مجھ سے چھپا رہی ہے کوئی اور بھی ہے تیرے گھر والوں کے علاوہ تیری بھینس کا دودھ پیتا ہے میرا علم مجھے بتاتا ہے کہ وہ تیرا اور تیرے گھر والوں کا دشمن ہے تو مجھے بتا ۔ دادی جو سیدھی سادی تھی پریشان۔ہو کربولی اور تو کوئی نہیں ایک اجنبی نوجوان کچھ دن سے دودھ پی جاتا ہے مگر ہمارے گھر نہیں آتا یہ سن۔کر دونوں جوگی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دئے وہی بوڑھا جوگی بولا وہ کب آتا ہے تو دادی نے اسے وقت بتا دیا جوگی بولا وہ انسان کے روپ میں کوئی بلا ہے تو ہمیں اجازت دے کہ ہم۔جھنڈ میں چھپ رہیں اور جب وہ آے تو ہم اسے پکڑ لیں سادہ سی عورت چالاک جوگی کی باتوں میں آچکی تھی اس نے نا صرف انکو اس بات کی اجازت دے دی بلکہ چارپائی بھی ڈال۔دی کہ۔اس پر سکون سے بیٹھو میں تم لوگوں کے لیے کھانا بناتی ہوں ادھر دادا ابو ذمیندار کی بھینسوں کو چارہ ڈالنے میں مصروف تھے کہ دادے کو انکے کے نام کی پکار سنائی دی انہوں نے مڑ کر دیکھا تو انکو وہی نوجوان کھڑا دکھائی دیا دادا اسے دیکھ کر خوش ہو گئے نوجوان۔نے کہا کہ میں تم سے بہت ضروری بات کرنے آیا ہوں میں انسان نہیں ہوں میں ایک سانپ ہوں اور اپنی عمر پوری کر کے روپ بدلنے پے اب قادر ہوں تم جانتے ہو یہ ساون کا مہینہ ہے اس مہینے میری مجبوری ہے میں نے ہوا میں رہنا ہے اس لیے میں تمھارے گھر کے پاس درختوں کے جھنڈ میں رہ رہا ہوں بہت سے جوگی کافی عرصہ سے میرے پیچھے لگے ہوے ہیں میں بس اس مہینہ کمزور ہوتا ہوں اس علاقہ کے جوگی میری بو سونگھ چکے ہیں وہ مجھے ڈھونڈ رہے تھے بدقسمتی سے وہ تمھارے گھر آپہنچے اور چالاکی سے تمھاری بیوی سے میرے بارے سب اگلوا لیا ہے اور اب وہ سحر ہونے کا انتظار کریں گے کہ میں دودھ پینے آوں تو وہ مجھے پکڑ لیں۔مگر جب تک سحرہو گی میں بہت دور جا چکا ہونگا میں نے وعدہ کیا تھا تم سے کہ جب جاوں گا میں تمھیں انعام دونگا گھر کے سامنے ایک شیشم کاپیڑ ہے اس شیشم کے پیڑ کےپاس ایک سوراخ ہے پرسوں جمعہ کے دن فجر کی نماز کے بعد اپنی بھینس کا تھوڑا سا دودھ اس سوراخ میں ڈال دینا اور یہ کپڑا جیسے تمھیں کوئی آواز آئے اس سوراخ کے منہ پر ڈال دینا اور واپس چلے جانا کچھ دیر بعد واپس جانا تمھارا انعام تمھیں مل جاے گا اب گھر واپس جا کر کل صبح تک اپنی بیوی سے یا جوگیوں سے کوئی بات نا کرنا تاکہ میں تب تک دور چلا جاوں تمھاری بیوی کی بجاے اگر یہ غلطی تم نے کی ہوتی تو میں تمھیں سزا دیتا مگر تم بے قصور ہو انعام پا کر اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لیکر یہاں سے کسی دور دراز کے مقام چلے جانا اب یہاں تمھارا رہنا بہتر نہیں یہ کہہ کر وہ نوجوان مڑا اور چلا گیا دادا ابو جوحیرانی سے کھڑے سب سن رہے تھے شرمندگی پریشانی اور تاءسف سے اسے جاتا دیکھتے رہ گئے انہوں نے کپڑے کو دیکھا یہ ایک سرخ رنگ کا رومال سائز کپڑا تھا انہوں نے اسے لپیٹ کر جیب میں رکھ لیا دادا ابو سمجھدار انسان تھے ساری بات سمجھ چکے تھے ختصر یہ کہ اس دن دادا ابو جان بوجھ کے شام کے بعد واپس گئے دادی بڑی بے چینی سے دادا کا انتظار کر رہی تھیں دادا کو دیکھتے ہی ساری بات جھٹ سے سنا دی اور کہا میں تو ڈر کے مارے آج بھینس باندھنے بھی نہیں جوگی بابا کو بھینس کھول کر دی اور انہوں نے وہاں باندھ دی ہے آپ جوگی بابا کو مل۔لو مگر دادا ابو نے تھکاوٹ کا بہانہ بنا کر انکار کر دیا اگلی صبح دن چڑھے جوگیوں نے دروازہ پر آواز لگائی کہ ناشتہ پانی دے دو دادے نے جو آج بھی ذمیندار کے گھر کام کرنے نا گئے تھے دروازہ کھولا اور بڑے غصے سے جوگی کو کہا کہ جتنا جلدی ہو سکتا ہے یہاں سے چلے جاو ورنہ پورا گاوں اکٹھا کر کہ سزا دلواوں گا کہ تم پہلے لوگو ں کے گھروں میں سانپ چھوڑتے ہو پھر پکڑتے ہو اور ان سے معاوضہ لیتے ہو بھاگو یہاں سے پتا نہیں کیا الٹی سیدھی بات سنا کر تم نے میری بیوی کوپریشان کر دیا ہے چالاک جوگی آگے سے ہنس دیا اور بولا آ گیا نا تو بھی بہکاوے میں آج وہ دودھ پینے جب نہیں آیا تو میں سمجھ گیا تھا کہ کچھ گڑ بڑ ہے اب سن میں کئی سالوں سے اسکا پیچھا کر رہا ہوں وہ روپ بدلنے میں ماہر ہے میرے بڑے کام آے گا بڑی مشکل سے اس کی بو پا کر میں اس کے سرے پہ پہنچا تھا مگر تو نے میرا سارا کام بگاڑا ہے جوگی نے جیب سے ہلدی نما پاوڈر سا نکال کر دادے ابو کے آگے ہوا میں اچھا دیا اور کہا جا آج کے بعد تیرے ایک بیٹے کے علاوہ اور اولاد نا ہو گی اور نا ہی اس کی آگے ایک اولاد سے ذیادہ ہو گی اور یہ سلسلہ تیری سات نسل تک چلے گا دادے ابو نے یہ سن کر تحمل سے کہا کہ تو جاتا ہے یا میں آواز دوں گاوں والوں کوجوگی بڑبڑاتاہوا اپنے ساتھی کو لیکر چلا گیا دادے ابو نے دادی سے بھی کافی ناراضگی کا اظہار کیا شام کو دادا ابو نے شیشم۔کے درخت کے پاس جا کر سوراخ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر سوراخ کا نشان تک نا تھا جمعہ والے دن دادا ابو نے فجر کی نماز ادا کی اور شیشم کے درخت کے پاس چلے گئے وہا ں ادھر ادھر دیکھا تو درخت کے پاس ایک کافی کھلا سوراخ نظر آیا دادے ابو نے اس سوراخ میں بھینس کا دودھ جو وہ گلاس بھر کر ساتھ لاے تھے اس سوراخ پر گرا دیا دودھ گرتے ہی سوراخ میں سے عجیب سی بھنبھناہٹ کی آوازیں آنے لگیں ۔دادا جو حیرانی اور خوف سے یہ آواز سننے میں مصروف تھے بھول گئے کہ نوجوان نے انکو کہا تھا کہ جب آواز آئے تو کپڑا سوراخ پر ڈال دینا اسی لمحہ اچانک سے کالے بھڑ سینکڑوں کی تعداد میں سوراخ سے باہر نکلنے لگے بھڑوں کی کے نکلنے سوراخ سے نکلنے کی رفتار اور بھنبھناہٹ کی آواز بہت تیز تھی جب کافی دیر بھڑ نکلنے کے بعد انکی رفتار اور تعداد میں کمی آنے لگی تو دادا جو بہت خوفزدہ ہوے کھڑے تھے نے چونک کر وہ کپڑا سوراخ پہ پھینک دیا کپڑا پھینکنے کی دیر تھی بھڑ نکلنا اور بھنبھناہٹ کی آواز آنا یکدم بند ہو گئی دادے نے ڈر کے مارے گھر کی طرف دوڑ لگا دی گھر پہنچ کر اوپرکی طرف دیکھا کہ بھڑوں کا غول ہو گا مگر کچھ بھی نہیں تھا صبح دن چڑھے دادا ابو ہمت کر کے دوبارہ شیشم کے درخت کےپاس گئے کپڑا وہیں پڑا تھا ڈرتے ڈرتے کپڑا اٹھایا تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں کافی مقدار میں سونے کے سکے پڑے تھے اور سوراخ کا نام و نشان تک نا تھا خوشی خوشی کانپتے ہاتھوں سے وہ سونےکے سکے اٹھاے اور گھر کی راہ لی مختصر یہ کہ دادا ابو نے وہ علاقہ چھوڑ دیا غربت خوشحالی میں بدل چکی تھی جوگی کا کہا سچ ثابت ہوا دادے کی کوئی اور اولاد نا ہوئی میرے والد کے جوان ہونے پہ دادے نے یہ واقعہ انکو سنایا انکی شادی کی پھرمیں پیدا یوامیں جب سمجھدار اور شادی لائق ہوا تو میرے ابو نے یہ واقعہ مجھے سنایا دادا ابو بھی کبھی موڈ میں ہوتے تو سنایا کرتے تھے یہ واقعہ میری شادی کے بعد دادا ابو اور والد صاحب کی وفات ہو گئی میری شادی کے بعد سات سال تک ہم اولاد سے محروم رہے بہت کوشش کی علاج معالجہ کیا اللہ پاک نے بیٹے سے نوازا اللہ کے کرم سے میرا بیٹا چار سال کا ہے مگر اس کے بعد کوئی اولاد نہیں ہوئی ہم جہاں سنتے ہیں وہاں بھاگتے ہیں سارے عامل حضرات ساری بات سن کر یہی کہتےہیں کہ اس جوگی نے دادے پر جو عمل کر دیا تھا اسکی کاٹ کرنی پڑے گی مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے روپیہ پیسے کی کمی نہیں بس اولاد کی کمی کا احساس ہوتا ہے ہمیں کسی نے کہا کہ آپ کسی ماندرے کے پاس جائیں میرے ایک منشی صاحب بابے شریف کو جانتے تھے انہوں نے انکا بتایا انہوں نے ساری بات سن کر آپ کا ذکر کیا اور اب آپ کے پاس بیٹھے ہیں یہ کہہ کر وہ صاحب خاموش ہوگئے میں کافی دلچسبی اور توجہ سے انکی بات سننے میں مصروف تھا میری ذندگی میں روز نئی سے نئی اور دلچسب بات اور واقعہ دیکھنے سننے کو ملتا ہے مگر یہ واقعہ اپنی مثال آپ تھا میں نے انکو تسلی دی کہ آپ ناشتہ کریں چاے پیئں پھر دیکھتا ہوں کیا معاملہ ہے میں نے انکے نام وغیرہ جن میں دادا دادی کے نام بھی شامل تھے لکھ لیے انکے ناشتہ کرنے کے دوران میں اس سارےمعاملے کی معلومات لے چکا تھا جب میں معلومات لے چکا تو واپس انکے پاس جا بیٹھا اورعرض کی کہ محترم میری ذندگی میں ایسا واقعہ اور معاملا پہلی بار آیا ہے میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپکے دادا جی نے جو آپ کے ابو کو بتایا وہی آپ کے ابو نے آپکو بتایا اس میں کونسی بات کتنے حد تک سچ ہے میں نہیں جانتا مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ آپ کی ذات پہ کوئی سحر کے اثرات نہیں اور اگر میرا حساب ٹھیک ہے تو آپ کے والد صاحب کی ذات پہ بھی آپ کے دادا ابو کی طرح کوئی سحر کا اثر نہیں تھا آپ نے بتایا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا آپ کے والد کی عمر دس سال تھی اور وہ آپ کے دادا کی اکلوتی اولاد تھے اس حساب سے دیکھا جاے تو آپکی دادی دادا پہلے سے ہی اس کمی میں مبتلا تھے آگے انکی اولاد میں آپ بھی اکلوتے ہیں اب آپ کا بیٹا بھی آپ کا اکلوتی اولاد ہے ۔ پوری دنیا میں ایسے کئی گھر ہیں جن کی ایک ہی اولاد ہوتی ہے آپ پریشان نا ہوں میں آپکو کچھ پڑھنے اور کچھ استعمال کرنے کا ایک علاج بتاے دیتا ہوں اللہ نے چاہا تو اللہ پاک آپکو اور اولاد سے نوازیں گے اس دوران آپ کسی اچھے ڈاکٹر سے ملیں مختصر یہ کہ کچھ ہفتے کے روحانی علاج اور میڈیکل کے علاج کے بعد ایک دن ربنواز صاحب کی مجھے کال آئی وہ خوشی سے پھولے نا سما رہے تھے کہہ رہے تھے کہ اللہ کا بہت کرم ہو گیا ہے میری بیگم امید سے ہے ۔نو ماہ بعد انکو اللہ پاک نے جڑواں بچوں سے نوازا ربنواز صاحب نے مجھ سے مشورہ کر کے دونوں بچوں کے نام رکھے اگے دن ربنواز صاحب ڈھیر ساری مٹھائی اور تحائف کے ساتھ تشریف لاے جاتے وقت انہوں نے ایک لفافہ مجھے دیا اور کہا کہ میں جب چلا جاوں تو یہ لفافہ کھولیے گا اس میں ایک خاص تحفہ ہے انکی گاڑی روانہ ہونے کے بعد میں نے بڑے اشتیاق سے وہ لفافہ کھولا اندر ایک باریک پیپر تھا میں نے وہ پیپر نکال کر کھولا تو میں مسکرا دیا سامنے ایک باریک سا سونے کا سکہ پڑا تھا