---Advertisement---

Qeemti waqt Good Moral story in Urdu

Published On:
---Advertisement---

Qeemti waqt Good Moral story in Urdu

The Urdu story “Qeemti Waqt” is a masterpiece of contemporary literature, penned by the legendary author Saadat Hasan Manto. This captivating tale delves into the human experience, expertly exploring the consequences of squandering time. Through the narrative, Manto skillfully illustrates the devastating effects of letting precious moments slip away, making “Qeemti Waqt” a thought-provoking Urdu story that resonates deeply with readers.

 

At its core, the Urdu story “Qeemti Waqt” is a powerful exploration of the human condition, delving into themes of love, loss, and regret. Manto’s masterful storytelling weaves a cautionary tale that urges readers to cherish and utilize their time wisely. As a result, “Qeemti Waqt” has become a beloved Urdu story, celebrated for its ability to evoke introspection and spark meaningful conversations about the value of time.

 

The enduring popularity of the Urdu story “Qeemti Waqt” can be attributed to its universal themes and relatable characters, making it a timeless classic in the world of Urdu literature. Manto’s skillful storytelling has ensured that this Urdu story continues to captivate audiences, serving as a poignant reminder to appreciate and make the most of the time we have. If you haven’t already, immerse yourself in the captivating world of “Qeemti Waqt” and discover why this Urdu story remains a cherished favorite among readers.

قیمتی وقت

اسکول میں یہ خبر جنگل کی آگ کی ماندپھیل چکی تھی کہ فائق کا قیمتی ٹچ موبائل گم ہو گیا ہے ابھی سات آٹھ روز پہلے اس نے گھر والوں سے نہایت ضد کر کے موبائل فون خریدا تھا بیشک شہر کی سب سے مہنگی کالونی میں اس کے پاپا کا ذاتی بنگلہ تھا اور موبائل کا گم ہو جانا ان کے لیے کوئی بڑی بات یا پریشانی کی وجہ نہیں بن سکتا تھا مگر فائق کا یوں لا پرواہی کا مظاھرہ کرنا انہیں غصہ کرنے پر مجبور کر رہا تھا دو سال سے اس کے بے حد ضد کرنے کے باوجود وہ اُسے ابھی موبائل لے کر دینے کے حق میں نہیں تھے اور اسے سختی سے منع کر دیا تھا کہ کالج میں داخلے سے پہلے اسے ہر گز موبائل استمعال کرنے کی اجازت نہیں ہے پھر بھی دہم جماعت میں آتے ہی فائق نے امی اور بھائی کو اس کا غلط اور زیادہ استمعال نا کرنے کا کہہ کر مطمئن کیا اور ان کی مدد سے پایا کو راضی کر لیا شروع میں اس کے گھر والوں کے اطمینان کے لیے موبائل کم اور بس ضرورت کے وقت استمعال کیا تا ہم ان کی طرف سے بے فکر ہونے پر اس نے موبائل کو حد سے زیادہ اہمیت دینا شروع کر دی اور سارا وقت اس کے استمعال پر صرف کرنے لگا وجہ تو انہیں تب پتا چلی جب فائق کی امی اس کو لے کر اسکول آئیں اور اس کی پرنسپل کو بتایا کے اس نے اپنا موبائل گم کر دياہے اور اپنے ابو کی ڈانٹ پر برا منا کر کل سکول نہیں آیا صبح اسمبلی سے پہلے اس کے دوستوں نے پرنسپل کے کمرے کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ تمام باتیں سن لیں اور میں اس پر افسوس کرنے لگے کیوں کہ فائق موبائل سکول لے کر آتا تھا اور وہ بھی اس کے موبائل پر خوب گیمز کھیلتے تھے پرنسپل جان چکی تھیں کہ تمام بچوں کو اس بات کی خبر ہو چکی ہے اس لیے وہ اسمبلی کے بعد فائق کی امی کو ساتھ لے کر اس کی کلاس میں آ گئیں اس کی ٹیچر مس ثوبیہ سے بات کرنے کے بعد وہ پوری کلاس سے مخاطب ہوئی اور بولی بچو اگرچہ موبائل ایجاد تو ہماری اسانی کے لیے کیا گیا لیکن ہم نے اسے نمود و نمائش کا ذریعہ بنا لیا ہے بچے سڑک پر چلتے ہوئے اور راستے میں بھی اس کا غیر ضروری استعمال کرتے ہیں پیشن سمجھ کر ایسا کرتے ہوئے وہ بہت فخر محسوس کرتے ہیں اس سے نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ فضول خرچی بھی ہوتی ہے ہر وقت کانوں میں ہیڈ فون رکھنے سے قوت سماعت متاثر ہوتی ہے اوپر سے اس میں ٹی وی کیمرے اور انٹرنیٹ کی سہولت نے بچوں کو بے حد مصروف کر دیا ہے بچے اپنا قیمتی ٹائم پڑھائی کی بجائے موبائل کی نظر کر دیتے ہیں جبکہ ان میں سے اکثر والدین کا کہنا بھی نہیں مانتے میڈم نے اپنی بات مکمل کی تفائک کے کلاس مانیٹر شہیر نے ان سے اجازت لے کر کہا میدہ کچھ طلبہ طالبات نصاب میں بالکل زیرو ہوتے ہیں لیکن وہ وائٹ چلانے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں پڑھائی کے بارے میں ان سے کوئی سوال پوچھ لیا جائے تو یہ پریشان ہو جاتے ہیں اس کے برعکس موبائل کے پیچیدہ فنکشنز کو اسانی سے سمجھ لیتے ہیں اور اس حوالے سے تمام معلومات رکھتے ہیں ایسے طلبہ کتابوں پکڑیں تو ان کے ہاتھ کانپتے ہیں لیکن ان کے پاس موبائل ہو تو ان کی پھرتی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے میڈم نے شہیر کو اظہار خیال کرنے پر شاباش دی پھر فائق کی امی بولی ہاں بیٹا اور موبائل فرینڈ شپ سے سب کو دور رہنا چاہیے ورنہ اس سے بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اس وقت اپنی طرف سے سب سے معذرت کر چکا تھا میڈم نے فائو سے پوچھا لگتا ہے تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اگر واقعہ ہی ایسا ہے تو اپ تم موبائل کے بارے میں کیا کہو گے فائق نے تھوڑا سوچ کر جواب دیا میں طلبہ سے کہنا چاہوں گا کہ وہ ایسے لوگوں سے ہر گز دوستی نا کریں جو ہر وقت موبائل پر باتوں میں مصروف رہتے ہوں یا ان کو اس طرف مائل کرنے کی کوشش کریں مس ثوبیہ کہنے لگیں تو اس لیے بچو چھوٹی عمر میں موبائل استمعال نہیں کرنا چاہیے اور اگر واقعی گھر والوں سے رابطہ کرنے یا کسی تعلیمی مسئلے میں اسے استمعال کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ آپ کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو کیوں کہ اس کا کم سے کم استمعال بہتر ہے مس ثوبیہ نے یہ کہا تو ان کی ایک طالبہ نورین نے پوچھا ۔ مس موبائل کو کس طرح کم یا طریقے سے استمعال کیا جا سکتا ہے مس ثوبیہ ہے کہا نورین بیٹا موبائل لیپ ٹاپ آی پیڈ جیسی ایجادات ہماری سہولت کے لیے بنائی گئ ہیں ان کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ ان کو استمعال کرنے کی لگن میں تعلیم کو نظر انداز کر دیا جائے آپ موبائل گیمز کھیلیں ان کے ذریعے دوستوں عزیزوں سے رابطے میں بھی رہیں مگر خیال رکھنا بے حد ضروری ہے کہ بچے اپنا وقت برباد نا کریں والدین اور اساتذہ کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے عزیز طلباء کو چاہیے کہ نا خود موبائل کا غیر ضروری اور بلا مقصد استمعال کریں اور نہ دوسروں کو کرنے دیں ۔میڈم نے فائق سمیت تمام بچوں سے موبائل کے مثبت استمعال کا وعدہ لیا اور اس کی امی کے ساتھ کلاس روم سے چلی گئیں مس ثوبیہ نے کلاس میں کھڑے ہو کر فائق کو سیٹ پر بٹھایا اور بچے ایک بار پھر اپنا سبق پڑھنے لگے

---Advertisement---

Leave a Comment