Paras gaon ka shkari true Good Moral Story in Urdu
The Urdu story “Pars Gaon Ka Shikari” is a timeless classic that has captivated readers for generations. Written by the renowned author Munshi Premchand, this thought-provoking tale explores the life of Ghisu, a skilled hunter living on the outskirts of Pars Gaon. Through Ghisu’s journey, Premchand masterfully weaves a narrative that delves into themes of redemption, love, and social commentary, making “Pars Gaon Ka Shikari” a must-read Urdu story.
One of the key aspects that sets “Pars Gaon Ka Shikari” apart from other Urdu stories is its ability to evoke a sense of empathy and self-reflection in readers. As Ghisu grapples with his feelings and ultimately makes a choice that changes his life forever, readers are forced to confront their own values and beliefs. This Urdu story’s power to inspire introspection and spark meaningful conversations is a testament to Premchand’s skill as a storyteller.
The enduring popularity of “Pars Gaon Ka Shikari” can be attributed to its universal themes and relatable characters, making it a beloved Urdu story among readers of all ages. As we reflect on Ghisu’s journey, we’re reminded that true strength lies not in our abilities, but in our capacity for compassion, empathy, and self-awareness. If you haven’t already, immerse yourself in this captivating Urdu story and discover why “Pars Gaon Ka Shikari” remains a cherished classic in the world of Urdu literature.
پارس گاؤں کا شکاری
ادم خان طبیعت کی خرابی کے باوجود شکاری کے ہمراہ جانا چاہتا تھا مگر شعبان کے کہنے پر گھر پر ہی رک گیا شعبان اج پوری تیاری کے ساتھ ایک نئے اور مختلف راستے سے جنگل میں داخل ہوا مگر شو مئی قسمت کہ جب وہ بندوق کاندھے پر لٹکائے شکاری لباس میں ملبوس اور ضروری سامان کا تھیلا لٹکائے جنگل کے اعتراف کا جائزہ لے رہا تھا اسے اپنی پشت پر سے خشک پتوں پر کسی بھاری بھر کم جانور کے قدموں کی اواز سنائی دی اس نے فورا پیچھے دیکھا تو اسے ایک خوفناک ریچھ جھومتا اتا دکھائی دیا شکاری نے سامان کا تھیلا دوسری طرف پھینکا اور بجلی کی تیزی سے قریبی گھنے درخت پر چڑھ گیا اور سانس روک کر ریچھ کو اتا دیکھتا رہا یقینا رینچھ نے اسے نہیں دیکھا تھا مگر دوسری سمت پڑے ہوئے شکاری کے تھیلے پر اس کی نظر پڑ گئی جسے اس نے چند سیکنڈ میں چیر پھاڑ کر رکھ دیا شاید وہ کھانے کو کچھ تلاش کر رہا تھا مگر جب تھیلے میں سے اسے کچھ نہ ملا تو اس نے شدید غصے میں تھیلے میں موجود تمام چیزیں زمین پر بکھیر دیں حتی کہ بندوق کے کارتوس بھی یہ دیکھ کر شعبان اپنی جیبیں ٹٹولی کچھ کارتوس اس کی جیب میں موجود تھے ارینج کو انسانی بو ا چکی تھی اس نے اس پاس کے تمام درخت جنجوڑ ڈالے مگر نہ کام رہا کہ شعبان گھنے درخت کے سبز پتوں میں اپنے اپ کو مکمل طور پر چھپا چکا تھا اخر مایوس ہو کر ریچھ وہاں سے چلا گیا شکاری خاموشی سے زیادہ دیکھتا رہا شعبان کو یقین ہو گیا تھا کہ ہو نہ ہو یہ وہی ریچھ ہے جو کبھی کبھی بھوک سے بے تاب ہو کر جنگل سے نکل کر ابادی کی طرف ا جاتا اور انسانوں کو اپنا نوالہ بنا لیتا شعبان نے تہ دل سے تمنا کی کہ کاش وہ اس خوف ناک ریچھ سے گاؤں والوں کو نجات دلا دے اور پھر جلد ہی اس کی تمنا پوری ہونے کا وقت اگیا شعبان نے درخت کی شاخوں اور گھنے پتوں سے جھانک کر دیکھا کچھ دور مگر جنگل کے قریبی تالاب کے کنارے ایک عورت کپڑے دھور رہی تھی اور اس کا چھوٹا سا معصوم بچہ اس کے قریب ہی کھیل رہا تھا جبکہ وہی خوف ناک ریچھ دبے قدموں عورت کی طرف بڑھ رہا تھا بے خبر غریب عورت اور اس کا بچہ اپنے اپ میں مگن تھےکے شعبان نے جلدی سے نشانہ باندھا اور اس پر فائر کر دیا گولی سیدھی ادم خور ریچھ کی موٹی گردن پر لگی اس کی سخت کھال پر سرخ دکھائی دے رہا تھا ریچھ زخمی ہو کر غضبناک ہو گیا عورت نے جو یہ منظر دیکھا تو وہ کپڑے دھونا بھول گئی اور چونک کر اپنے پیچھے دیکھا اس کا بچہ ریچھ کی جانب حیرت سے دیکھ رہا تھا جو گولی لگنے کے بعد غصے کے عالم میں دھاڑ رہا تھا غریب عورت نے خوف اور بسی سے رونا شروع کر دیا وہ اپنے بچے کی طرف لپکنا چاہتی تھی جو کھیلتے کھیلتے اس سے کچھ دور ہو گیا تھا شعبان تیزی سے درخت سے اترا اور بھاگتا ہوا بچے کے پاس پہنچا اور ریچھ کی دسترس سے دور کرنے کے لیے اسے اٹھا کر مخالف سمت میں دو جھاڑیوں میں بٹھا دیا اب ریچھ نے شعبان کو ہی سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور اس کی طرف انے لگا شعبان نے بھی اج کا دن اپنی زندگی کا اخری دن تسلیم کر لیا تھا فائر کرنے سے پہلے ہی ریچھ نے اس پر حملہ کر دیا اور اس کا دایاں بازو چبا ڈالا اور پھر پےدر پے فائر کی اوازیں انے لگی جو ریچھ پر کی جا رہی تھی پہلے سے زخمی ریچھ غصے میں اپنا سر ادھر ادھر مار رہا تھا ایسا لگتا تھا ریچھ تھوڑی ہی دیر میں اپنے دشمن شکاری کا خاتمہ کر دے گا مگر اس وقت شکاری کا دوست اور ساتھی ادم خان وہاں پہنچ گیا ادم خان گھر پر ارام کرنے کی غرض سے رک گیا تھا مگر وہ زیادہ دیر بستر پر ٹک نہ سکا اور شکاری شعبان کے پیچھے پہنچ گیا جب پہنچتے ہی شعبان کے پہلے فائر کی اواز سن کر وہ تالاب کی جانب دوڑا اور درختوں کے پیچھے سے ہی رینچھ پر فائر کرنا شروع کیے اس اچانک حملے نے ریچھ کو کچھ دیر بعد بے بس کر دیا مسلسل فائر کی اواز سن کر نمبردار نے مزید مددگار ادمی لاٹھی اور بندوقوں سے لیس کر کے جنگل بھیجیں یونہی کچھ ہی دیر میں ریچھ کا خاتمہ کر دیا اور یوں پارس نامی گاؤں کے لوگوں کو اس ادم خور خوف ناک ریچھ سے نجات مل گئی گاؤں کے تمام لوگ اور نمبردار شکاری شعبان کے بہت شکر گزار تھے جس نے اپنی جان پر کھیل کر ایک معصوم بچے اور عورت کی جان بچائی تھی اور ریچھ کو اس کے انجام تک پہنچایا تھا شکاری شعبان پورے گاؤں کا مہمان بن چکا تھا جنہوں نے اس کی صحت یابی تک اس کی خوب خدمت اور خات کی اور اس کے جانے کے بعد اتنے ہی عرصے تک اس کی رہن زندگی اور بہادری کے قصے گاؤں کے لوگوں کی زبان پر زد عام رہے۔