---Advertisement---

Orton ki awazen Horror Story in Urdu

Published On:
---Advertisement---

Orton ki awazen Horror Story in Urdu 

The Horror Story in Urdu “Orton ki Awazen” is a masterpiece of contemporary Urdu horror literature, weaving a chilling narrative that explores the darker side of human experience. This terrifying tale, penned by renowned author Tariq Ismail Sagar, solidifies the Horror Story in Urdu “Orton ki Awazen” as a classic in the genre. With its eerie atmosphere and heart-pounding suspense, this story is a must-read for fans of Urdu horror.

 

As a standout example of Urdu horror storytelling, the Horror Story in Urdu “Orton ki Awazen” expertly crafts an atmosphere of dread and uncertainty. Sagar’s skillful storytelling brings to life the haunting world of abandoned mansions and supernatural entities, keeping readers on the edge of their seats. The Horror Story in Urdu “Orton ki Awazen” is a gripping exploration of fear, superstition, and the unknown, cementing its status as a landmark in Urdu horror literature.

 

For fans of Urdu horror stories, the Horror Story in Urdu “Orton ki Awazen” is an essential read. This haunting tale continues to captivate audiences with its chilling narrative and masterful storytelling. The Horror Story in Urdu “Orton ki Awazen” remains a timeless classic in the world of Urdu literature, showcasing the power of Urdu storytelling to evoke emotions and spark imagination. Dive into the haunting world of the Horror Story in Urdu “Orton ki Awazen” and experience the thrill of Urdu horror at its finest.

عورتوں کی آوازیں

اسلام علیکم یہ کہانی میری آب بیتی ہے میرا نام عبداللہ ہے میں قصور کا رہنے والا ہوں میں جب 5 سال کا تھا تو میں گھر کے قریب گراٶنڈ میں کھیلا کرتا تھا وہ گراٶنڈ ویران تھا کافی عرصے سے تو میرے دوستوں نے اور میں نے مل کے اسں گراٶنڈ کو صیح کیا اور ہم وہاں کرکٹ کھیلا کرتے تھے تو اک دن جب میں کھیل کے آیا تو ٹھیک مغرب کے بعد مجھے ڈر لگنا شروع ہو گیا حالانکہ میں کبھی نی ڈرا تھا تو میں نے اپنی والدہ کو بتایا تو انہوں نے قریبی مسجد میں سے مجھے دم کروایا تو میں بہتر ہو گیا دن ایسے ہی گزرتے گۓ میں وہاں روزانہ کھیلنے جاتا تھا پھر کچھ دنوں کے بعد میرے جسم میں درد ہونا شروع ہوگیا میری ہڈیاں بہت درد کرتیں پھر مجھے ڈاکٹر کے پاس بھی لے گۓ وہاں میرے ٹیسٹ ہوۓ رپوٹ میں ڈاکٹر نے کہا کہ اسے کچھ بھی نہیں ہے دواٸیاں بھی دیں مگر آرام نہیں آیا پھر مجھے محسوس ہو نے لگا کہ کوٸی میرے ٹھہرا ہے میں جب پیچھے دیکھتا تو کچھ بھی نہ ہوتا ایک دن میں سویا ہوا تھا رات کے تقریبا 12 کا ٹاٸم ہو گا گرمیوں کے دن تھے میرے ساتھ چار پاٸی پر والدہ صاحبہ لیٹی تھیں اور پیچھے کی طرف میری بھابھی ماں لیٹی تھیں میں نے اوپر کی طرف دیکھا تو مجھے میری بھابھی ماں کی شکل میں ایک عورت دیکھاٸی دی وہ مجھے ہی گھور رہی تھی میں اس کو دیکھتا رہا میں نے سوچا کہ بھابھی ماں تو لیٹی تھیں پھر اوپر کیا کرنے گٸیں یہ خیال آتے ہی میں اٹھ کے بیٹھ گیا تو وہ عورت اچانک پیچھے ہو گٸی میں نے دیکھا تو بھابھی ماں لیٹی ہوٸیں تھیں میرے اندر خوف کی لہر دوڑ گٸی پھر ساری رات میں نےڈر سے گزاری صبح کو پھر میں نے والدہ صاحبہ کو بتایا تو انہوں نے پھر قریبی مسجد سے دم کروایااسلام علیکم آج آب بیتی کو آگے بڑھاتے ہیں پھر چند دن کے بعد رات کے تقریبا 8 بجے ہو نگے سردیوں کی رات تھی اور ٹھنڈ بہت زیادہ تھی تو میں کام کے لیے گھر سے باہر نکلا ابھی چند قدم ہی بمشکل چلے تھے کہ پیچھے سے کسی کے چلنےکی آواز آٸی میں نے پیچھے دیکھا تو کوٸی بھی نہ تھا میں پھر تھوڑا سا چلا تو پھر بھاری قدموں کی آواز آٸی قدموں کی آواز ایسی تھی کہ کو ٸی بہت ہی بھاری چیز زمین پر گری ہو میں نےپھر پیچھے دیکھا تو کوٸی بھی نہ تھا پھر میرے دل میں خوف پیدا ہونے لگا میں نے آیت الکرسی کا ورد شروع کیا تو قدموں کی آواز آنا بند ہو گٸی عیدالفطر کا دن تھا تو ہم نماز عید کی تیاری کر رہے تھے تو کسی نے دروارزھ کھٹکھٹایا میں گیا تو اک ملنگ بابا ٹھہرے تھے میں نےان کو پیسے دیٸے تو انہوں نےکہا میرا چاۓ پینے کا دل کر رہا ہے میں پیسے نی لیتا اس ملنگ بابا کو میں نے کھبی نہیں دیکھا تھا خیر میں چاٸے لے کر آیا تہ اسں بابا نے مجھے میری باتیں بتانا شروع کیں وہ چاۓ کا گھونٹ پیتا پھر میری بات کرتا آخر میں جب اس بابا نے چاۓ پی لی تو اس نے کہا بیٹا دنیا زور لگاۓ گی تجھے ذلیل کرنے کے لیۓ پر کچھ کر نہ سکے گی مجھے کہا جا پیالہ دے آ میں پیالہ دے کر آیا تو وہاں کوٸی بھی نہیں تھا میں نے گلی میں بھی دیکھا کوٸی نہیں تھا وہاں اس کی باتوں کی مجھے اسں وقت سمجھ نی لگی لیکن کچھ دن بعد میں نےدیکھا کہ جو بھی میرے خلاف بات کرتا اس کا ںقصان ہو جاتا تھا ایک دن میرے بہت ہی قریبی دوست نے میرا دل دکھایا تو اگلے دن وہ بیمار ہو گیا اور کافی دنوں تک بیمار رہا میرے جسم میں درد رہتا تھا میری ہڈیاں درد کرتی تھیں میں نے کسی کو نہ بتایا میری حالت قابل رحم ہو گی تھی اور میں دن میں ہر تین گھنٹے بعد کھانا کھاتا تھا اور تین روٹیاں کھانے کے بعد بھی بھوک نہیں مٹتی تھی میں بہت موٹا ہو گیا تھا مجھ سے چلنا بھی محال تھا کیونکہ ہڈیاں کمزور ہو گی تھیں میں بہت روتا تھا اور دعا کرتا تھا کہ میرے پیارے اللہ کوٸی سبب بنا میں کرکٹ کھیلتا تھا میں نے اپنے سکول کو بہت سے میچ جتواے تھے میں فاسٹ بولر تھا پر میری حالت اتنی خراب تھی کہ بیٹ تک نی گھما سکتا تھا اور اوور میں جب میں بال کرواتا تو بلکل نارمل سپیڈ سے بال جاتی میں بہت پریشان تھا کہ یہ کیا بن گیا ہے میرا.آ جائیں کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں ہمارا جو پرانا گھر تھا وہاں پر جن رہتے تھے مجے اپنے گھر میں کبھی بھی کچھ محسوس نہیں ہوا لیکن جو ہمارے گھر کی چھت تھی وہاں مجے بہت ڈر لگتا تھا میں چھت پر جانے سے بھی ڈرتا تھا اور مجے وہاں پر خوف بھی بہت اتا تھا مطلب ہمارے گھر کی چھت پر رہتے تھے جن پھر ہم لوگوں نے کراے کا مکان لیا وو گھر ذرا ویرانے میں تھا وہاں پر دو یا تین گھر اور تھے ہمارے مکان بن رہے تھے اس لیے ہمیں وہاں پر رہنا تھا اور پرانا مکان ہم نے بنوانا تھا .اک دن صبح کے وقت واش روم جانے کے لیے کمرے کا دروازہ کھولا تو میں آدھا نیند میں تھا اور آدھا جاگ رہا تھا تو سامنے ہی کیکر کا درخت تھا میری نظر اچانک سے اس درخت پر گی مجے وہاں پر دو ساۓ دکھائی دیے چھوٹا سایا آگے آگے بھاگ رہا تھا اور بڑا سایا اس کے پیچھے پیچھے بھگ رہا تھا اس کی نظر جسے ہی مج پر پڑی وہ چھوٹا سایا بھاگتا ہوا رکا اور واپس کیکر کے درخت کے پاس آیا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا اور بڑا سیایا بھی اس کے پیچھے تھا وہ بھی درخت ک پاس آیا اور غائب ہو گیا میں اپنے ابو کے ساتھ والی چارپائی پر بھی نہیں سو سکتا تھا سردیوں کے دن تھے اور گھر پر مہمان آے تھے تو مجے ابو کے روم میں سونا پڑا رات ک تقریبن 12 کا ٹائم ہوگا جب مجے اچانک سے اک ہاتھ دکھائی دیا اس ہاتھ کے اوپر کھال نہیں تھی میری اچانک سے پھر آنکھ کھل گیی اور میں خوف کی وجہ سے ساری رات نی سو سکا تھا مرے ابو جان کو بھی جنّ تھے پر ان کو کبی بھی کچھ نی کہا مجے وہ بو بہت تنگ کرتے تھے اپ لوگوں کو اک اور بات بتاتا چلوں کہ ہمارے گھر میں اک چارپائی تھی سرخ رنگ کی اس پر کوئی بھی نہیں سو سکتا تھا اک دن میں سو گیا اس پر ادھی رات کا ٹائم ہو گا کسی نے مرے پاؤں کو چھوا میری آنکھ کھل گیی دیکھا کچھ بھی نہیں تھا میں پر سو گیا پھر مجےکسی بچے کے ہاتھ محسوس ہوۓ پھر میری آنکھ کھل گی دیکھا کوئی بھی نہیں تھا ساری رات میری اسی ترھا گزر گی جب بھی میری آنکھ لگتی تو کوئی چیز مرے پاؤں ک چھوتی اور میری آنکھ کھل جاتی یا پر بچوں کے ہاتھ محسوس ہوتےمیں قرآن پاک کی تلاوت نی کر سکتا تھا میں جسے ہی قرآن پاک کی تلاوت شروع کرتا تو مرے اندر بے چینی شروع ہو جاتی تھی اور پیٹ میں درد شروع ہو جاتا تھا آ جایں کہانی آگے بڑھاتے ہیں کیی بار سوچا کہ خودکشی کر لوں پر میں خود پر کنٹرول کیے رکھا میرے 12 کلاس کے پیپر تھے بورڈ کے میری حالت بوہت خراب تھی میرا جسم درد کرتا اور ہاتھ کانپتے تھے چلا بھی نی جاتا تھا میرے اندر اتنی ہمت بھی نی تھی کہ میں سینٹر تک چل کے جاؤں بوہت مشکل سے قدم اٹھا پاتا تھا پھر ایک دن ابو کسی عامل کو لے کے اے انہوں نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور ایک چھری منگوائی چھری انہوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑ لی میں نے سوچا آج میری خیر نی ہے پھر انہوں نے عمل شرو ع کیا میں ان کا عمل سنتا رہا میں ڈرا ہوا تھا عمل ختم ہونے کے بعد انہوں نے کہا بیٹا کچھ محسوس ہوا میں نے کہا ہاں بس ہلکا سا درد ہوا تو انہوں نے کہا کے اس بچے کو کچھ نی ہے آپ کے گھر میں ہے جو بھی ہے خیر وہ مطمین نی کر سکا پھر ایک دن قاری صداقت صاحب ہمارے گھر ملنے اے تو بھائی نے ان کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ میں دو یا تین دن بعد بتاؤں گا پھر انہوں نے حساب کیا اور بتایا کہ اس کو سات جنات ہیں تین جن اور چار جننیاں ہیں انہوں نے پھر میرا علاج شروع کیا میں پیپر میں پڑھا ہوا پانی لے کے جاتا جب میرا ہاتھ اور ٹانگیں کانپنا شروع ہوتے تو میں پانی پیتا تو سکون آ جاتا اسی ترھا میں نے بورڈ کے پیپر دیے پھر مجے کچھ عمل بھی بتاۓ وہ جب میں کرتا تو عورتوں کی آوازیں آتیں وہ مجے گالیاں دیتیں انہوں نے چوریاں بھی کیں میری جیب سے پیسے گم ہو جاتے ایک دفعہ میں نے قمیض اتاری اور پانی پینے گیا واپس آیا تو جیب سے 2000 غیب تھا میں نے شور مچا دیا تو سب گھر والے ڈھونڈنے لگے تو 500 روپے چھو ٹے بھائی کو فریج کے پیچھے سے ملے ہمارے گھر کی چیزیں گم ہو جاتیں تو سب مجے کہتے میں وظیفہ شروع کرتا تو سب کو کہتا پورے گھر میں ڈھونڈو تو وہ چیز مل جاتی تھی پر کسی اور جگہ سے چیزیں گم ہو جاتیں تو میں وظیفے کے ذریعے واپس لے آتا یہ آخری قسط ہے میں نے اپنا علاج کروایا تو آگ کا بوہت بڑا الاؤ جلایا گیا مجے اس کے قریب بٹھایا گیا آگ کی تپش بوہت زیادہ تھی مج سے بیٹھا بھی نی جا رہا تھا جیسے جیسے آگ کی تپش مج پر پڑتی سکون ملنے لگا پر ان جنات کو جلا دیا گیا میں نے خود دیکھا ان کو جلتے ہوے وہ گالیاں دے رہے تھے اور بھیک مانگ رہے تھے پھر جب وہ جل گے تو مجے اسے لگا مرے جسم سے بوج اتر گیا ہے پر میری ذہانت چلی گی تھی مجے کچھ بھی یاد نی رہتا تھا میں نے پورا 1 سال تک یونیورسٹی نی گیا پھر میں نے دن رات محنت کی جو جسمانی کمزوری تھی اس کو دور کیا ورزش کی اور وظائف کرتا رہا اور آج میں الله پاک کا شکر ہے بلکل ٹھیک ہوں ذہانت بھی واپس آ گی ہے پر آج بھی جہاں جگہ بھاری ہو وہاں مرے سر میں درد شرو ع ہو جاتی ہے جب میرا علاج چل رہا تھا تو میرا تعویذ والا پانی پینے کے لیے الگ کپ تھا اک دن مرے چھوٹے بھائی نے اس میں پانی پی لیا تھا تو رات کو اس کے پاس ایک چڑیل ائی وہ بتاتا ہے کہ اس نے وہ سوٹ پہنا ہوا تھا جو چھوٹی بہن نے صدقہ دیا تھا اس کے ہاتھ میں آٹے کی ترھا کچھ تھا جو وہ اڑا رہی تھی کہنے لگی کہ تیری جرات کیسے ہوئی تونے اس کپ میں پانی پیا تو اس نے کہا میں تج سے ڈرتا نہی ہوں اور وہ میرا بھائی ہے اس کے بعد اس نے آیت الکرسی کا ورد شروع کیا تو چینخیں مارتی ہوئی بھاگ گی 

---Advertisement---

Leave a Comment