---Advertisement---

Nimta or khouf Naak Blaa Story in Urdu

Published On:
---Advertisement---

Nimta or khouf Naak Blaa Story in Urdu

The Horror Story in Urdu “Nimra aur Khoofnak Bala” is a masterpiece of contemporary literature, penned by the renowned author Aatir Shaheen. This captivating tale is a testament to the power of Urdu storytelling, delving into the realm of the supernatural and exploring the darker side of human experience. Through the Horror Story in Urdu “Nimra aur Khoofnak Bala”, Shaheen skillfully weaves a chilling narrative that showcases the best of Urdu horror.

 

At its core, the Horror Story in Urdu “Nimra aur Khoofnak Bala” is a gripping exploration of fear, superstition, and the unknown, cementing its place as a landmark in Urdu horror literature. Shaheen’s masterful storytelling brings to life the world of her protagonist, Nimra, navigating the treacherous landscape of a haunted existence, where the lines between reality and nightmare are blurred. As a result, the Horror Story in Urdu “Nimra aur Khoofnak Bala” continues to captivate audiences, inspiring new generations of readers and writers alike.

 

The Horror Story in Urdu “Nimra aur Khoofnak Bala” remains a cherished favorite among literary enthusiasts, thanks to its masterful storytelling and chilling narrative. Shaheen’s writing has ensured that this Horror Story in Urdu continues to resonate deeply with readers, showcasing the power of Urdu storytelling to evoke emotions and spark imagination. If you haven’t already, immerse yourself in the haunting world of the Horror Story in Urdu “Nimra aur Khoofnak Bala” and discover why this tale remains a timeless classic in the world of Urdu literature, with “Nimra aur Khoofnak Bala” being a must-read for fans of Urdu horror stories.

نمرہ اور خوفناک بلا

نمرہ_اور_خوفناک_بلا

قسط 1

مغرب کا وقت تھا ہر طرف مغرب کی اذانوں کی صدائیں گونج رہی تھی وہ ابھی نہا کر نکلی تھی اور مغرب کہ وقت وہ کھلے بالوں کو لئے گیلری پر آکھڑی ہوئی تھی۔ یہ جون کا مہینہ تھا سخت گرمیاں تھیں ہر طرف حبس کا ماحول تھا تبھی اُسے اپنے قریب ٹھنڈ کا احساس ہوا تھا بال ہواؤں کے زیر اثر اُڑ رہے تھے وہ دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے میں پیوست کرکے پھونکیں مارنے لگی ٹھنڈ جیسے پسلیوں میں گھس رہی تھی اس کی کان کی لوؤیں سخت گرم ہوگئیں کہ اُسے اس چیز کا احساس ہونے لگے تبھی زور سے کسی کتے کی بھونکنے کی آواز آ رہی تھیں نمرہ نے نیچے جھانکا تو وہ ان کے گھر کی طرف ہی دیکھ کر بھونک رہا تھا.”ایک تو اتنی ٹھنڈ پتا نہیں کیسے شروع ہوگئی اور اوپر سے یہ کمینا اوپس آئی مین کتا بھونکے جا رہا ہے اوئے ہش ہش” وہ اُسے بھگانا چاہ رہی تھی مگر وہ ادھر دیکھ کر بہت زور سے بھونک رہا تھا “بھئی اس کتے کو کیا ہوگیا؟” وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی “نمرہ بی بی یہ جنگل ہے یہ سب تو ہوگا ہی گزارا کرو” وہ خود سے ہی گفتگو کررہی تھی “اوئے کتے میاں یہاں کیا نظر آرہا ہے؟” وہ تھوڑا اوپر ہوکر ہاتھ ہلاتی زور سے بولی تبھی اُسے اپنے قریب کسی کی سرگوشیاں سنائی دینے لگیں وہ یکدم گھبرا سی گئی تھی “میں نظر آرہا ہوں” اُسے اپنے پیچھے کسی مردانہ آواز آئی تو وہ خود میں سمٹ سی گئی نمرہ کو یہ آواز بہت عجیب سی لگی ڈر دل میں کہیں کنڈلیاں مار رہا تھا اُس نے تھوک نگلا اور پلٹی اُسے وہاں کسی کا سایہ نظر آیا اور غائب ہوگیا “یہ کون تھا؟ اور کہاں گیا”؟ وہ حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی جبھی الفت بیگم کی آواز پر وہ سوچوں سے باہر نکلی جو اس کے کمرے میں موجود اُسے چیخ چیخ کر پکار رہی تھیں نمرہ نے سر پر ہاتھ مارا “اب خیر نہیں!” وہ بڑبڑائی اور پھر دوبارہ نظریں دوڑا کر وہ اندر کی جانب بڑھ گئی “تم کہاں گئی تھیں اور یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے دوپٹہ کہاں ہے اور بال کیوں کھولے ہوئے ہیں؟ تیرے ابا کو منع بھی کیا تھا کہ یہاں گھر نہ لیں شہر ہی ٹھیک ہے ایک تو جنگل میں گھر اور اوپر سے سامنے ہی قبرستان مجھے تو ہر گھڑی خوف رہتا ہے کہ جوان جہاں لڑکی اور یہ جنگل یا اللہ میں کیا کروں؟” وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں”ارے اماں ریلیکس کہیں نہیں گئی تھی یہیں گیلری میں تھی” اس نے تحمل سے کہا جبکہ الفت بیگم نے جھٹکے سے سر اُٹھایا”تو مغرب کے وقت اس حالت میں گیلری میں گئی تھی؟ ہائے رے نمرہ میں تیرا کیا کروں؟ تجھے کب عقل آئے گی؟ لڑکی” انہوں نے اپنا ماتھا پیٹنا شروع کردیا اور نمرہ کو بھی وہ واقعہ یاد آیا تو وہ اب بھی تھوڑی گھبرا گئی اپنی امی کی حالت دیکھ کر اس نے اپنے ساتھ ہونے والا واقعہ بتانا بہتر نہ سمجھا اس لئے خاموش ہوگئی اور یہ سب بعد کہ لئے چھوڑ دیا”ارے میری پیاری اماں اب نہیں جاؤنگی بس تم خوش ہوجاؤ” وہ ان کے سامنے گھٹنوں کہ بل بیٹھتے ہوئے محبت سے کہنے لگی “پکا نہ؟” انہیں خدشہ سا ہوا “جی میری پیاری اماں پکا” وہ ان کا ماتھا چومتے ہوئے بولی تو وہ پرسکون سی ہوکر چلی گئیںنمرہ نے سانس خارج کی اور چلتی ہوئی سائیڈ ٹیبل تک آئی اور دراز سے تالا چابی نکالی اور گیلری کہ دروازے پر تالا لگا دیا اور چابی واپس دراز میں رکھ کر پرسکون ہوکر سو گئیمگر وہ نہیں جانتی تھی ایک نئی مصیبت اس کی منتظر تھی صبح کا سورج نکلا تو سب بیدار ہوگئے تھے وہ تیار ہوکر نیچے آئی تو نوکرانی ٹیبل پر ناشتہ سجا رہی تھی۔نمرہ نے خاموشی سے ناشتہ کیا “اماں میں ذرا باہر جارہی ہوں تھوڑی دیر میں آجاؤنگی” نمرہ نے الفت بیگم سے کہا تو وہ اُسے گھورنے لگیں۔”ارے اماں آجاؤنگی کہیں نہیں جاؤنگی” وہ انہیں مطمئن کرکے تیزی سے نکل گئی کہیں اماں روک ہی نہ لیں وہ اپنی ڈی ایس ایل آر گلے میں لٹکائے جانوروں کی تصویر بنا رہی تھی اُسے وہاں ایک سیاہ رنگ کا بلا نظر آیا جو درد سے کراہ رہا تھا نمرہ کو اُسے دیکھ کر افسوس ہوا اس نے پہلے اس کی دو تین تصویر نکالیں اور پھر اُسے اُٹھائے گھر کی جانب روانہ ہوگئی ابھی وہ گھر میں داخل ہی ہوئی تھی کہ سامنے ہی اماں لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ہاتھ باندھے اُسی کی منتظر تھیں اُس نے نفی میں سر ہلایا اور گھر میں داخل ہوئی “اوئے یہ کس منحوس کالے بلے کو لے آئی ہے؟” وہ اُسے ٹوکتی ہوئی بولیں بلے نے انہیں بری طرح گھورا تھا “ارے اماں اسے چوٹ لگی ہے ٹھیک ہوجائے گا تو اسے واپس جنگل میں چھوڑ آونگی” وہ انہیں تفصیل سے آگاہ کرتی اوپر چلی گئی “یا اللہ! اس لڑکی کو ہدایت دے نہ جانے کیوں میرے دل میں ہول اُٹھ رہے ہیں جیسے ضرور کچھ غلط ہونے والا ہے” نمرہ ایک خوبصورت اور جوان لڑکی تھی جسے دیکھ کر سب کہ منہ سے تعریفی کلمات ہی نکلتے تھے اسی لئے الفت بیگم پریشان رہتی تھیںاُوپر سے اُس کی مشکوک حرکتیں انہیں اور پریشانی میں مبتلا کرتی تھیں نمرہ کہ ابو تو پولیس میں ہونے کی وجہ سے دو دو تین تین دن تک گھر سے باہر ہی رہتے وہ اُس بلے کو لئے اپنے کمرے میں آگئی اور اس کا بینڈج کرکے اُسے صوفے پر ڈال دیا وہ بس اُسے ہی دیکھے جا رہا تھا بلا فورا اُٹھا اور گیلری پر پہنچ کر اچھلنے لگا نمرہ نے مسکرا کر اسے دیکھا اور دراز سے چابی نکال کر گیلری کا دروازی کھول دیا اور حیرت کی بات اُس کے دروازہ کھولنے کے بعد وہ وہاں سے ہٹ کر اُسے کے برابر سو گیا اس کی حرکتیں جیسے کسی انسان کی طرح تھیں وہ ٹھٹھک سی گئی تھی لیکن اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹک دیا کہ ایک بلا کیا انسان ہوگا مگر یہ بلا مجھ سے ڈر کیوں نہیں رہا وہ سوچ میں پڑ گئی تھیں “کہیں اماں کا شک صحیح تو نہیں؟” وہ پریشانی سے سوچنے لگی اُسے کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے“افف! میں کچھ زیادہ ہی سوچ رہی ہوں” وہ سر جھٹک کر رہ گی وہ لاؤنج میں بیٹھی تصویریں دیکھ رہی تھی تبھی اُس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور ہاتھوں میں لرزش پیدا ہوگئی “یہ۔۔یہ کیسے ہوسکتا ہے؟” وہ لڑکھڑاتی آواز میں بولی دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا چہرے پر پسینہ کی ننھی ننھی بوندیں نمایاں ہوگئیں تھیں سب جانوروں کی تصویریں ٹھیک ٹھاک تھیں مگر دو تصویریں تھیں جو بلکل خالی تھیں اس میں کوئی جانور نہ تھا“ایسے کیسے ہوسکتا ہے اس میں اُس بلے کی تصویریں نہیں ہیں اور یہ دونوں پکچرز میں تو کوئی ہے ہی نہیں؟” وہ تھوک نگلتے ہوئے بولی اور تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھی جہاں وہ بلا گیلری کی دیوار پر مزے سے بیٹھا تھااور سامنے پڑا گوشت کا ٹکڑا جاہلوں کی طرح کھا رہا تھاجو کسی انسان ا گوشت کی طرح تھا نمرہ کو اس سے خوف آنے لگا تھا بے کے منہ پر خون لگا ہوا تھا اس کہ بلیو آنکھیں سرخ ہورہی تھیں اور پنچے کے نوکیلے ناخن بھی سرخ.ہورہے تھے یہ تو ایک فطری بات تھی لیکن اس کا انداز بہے جارحانہ تھا جیسے کوئی جنگلی کھا رہا ہو نمرہ کی تو جان فنا ہونے لگی وہ اپنا وجود گھسیٹتے ہوئے گیلری میں آئی بلا کو جیسے ہی کسی کہ آنے کا احساس ہوا اس کی ایک ایک چیز نارمل ہونے لگی تھی گوشت کا ٹکڑا غائب ہوگیا تھا اس کے پنجوں کا خون آہستہ آہستہ مٹنا شروع ہوچکا تھا منہ پر لگا خون بھی صاف ہوچکا تھا اور جب نمرہ نے اُس کی آنکھیں دیکھیں تو وہ واپس نیلی ہوگئیں تھیں نمرہ نے اُسے فورا اُٹھایا اور تیزی سے کمرے سے نکل گئی وہ دو تین سیڑھیاں اُتر رہی تھی اُسے اپنا ہوش نہ تھا اُسے بس اس بلے کو واپس جنگل میں چھوڑنا تھا الفت بیگم اُسے پیچھے سے آوازیں دے رہی تھیں مگر ابھی وہ ہوش و حواس میں نہ تھی اس کے ذہن میں وہ منظر تیزی سے گردش کررہے تھے کسی کی آواز اُسے سنائی نہیں دے رہی تھیں سننے سمجھنے کی.صلاحیت مفلوج ہوچکی تھی اس نے اپنی بھاگتی ٹانگوں کو جنگل میں آکر ہی بریک لگایا تھا اس نے بلے کو پھینکنے کے انداز میں نیچے رکھا تھا جس سےاُس نے ایک زور کی دھاڑ نکالی تھی نمرہ سہم کر دو قدم پیچھے ہٹی تھی.اور پلٹ کر بھاگنے لگی تھی بلے کی دھاڑیں تیز سے تیز تر ہورہی تھیں نمرہ نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اُسے لگا اگر اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو وہ بلا اُسے نہیں چھوڑے گا وہ شاید اُسے مار ڈالے گا اس کی سانسیں پھول رہی تھیں پاؤں دوڑ لگا لگا کر شل ہوچکے تھے ایسا لگ رہا تھا اس نے کوئی میرتھن ریس میں حصہ لیا ہے اگر وہ روکی تو ہار ضرور جائیگی اور اگر وہ روکتی تو واقعی ہار جاتییس تو نہیں مگر زندگی ضرور ہار جاتی اس نے گھر آکر ہی سانس بحال کیا ا اور دروازے کی چوکھٹ پر گر کر بیہوش ہوگئی تھی چونکہ آج اتوار کا دن تھا اس لئے نمرہ کے ابو اشرف صاحب کی چھٹی تھی وہ لاؤنج میں بیٹھےاخبار کا مطالعہ کر رہے تھے کسی کہ گرنے کی آواز پر انہوں نے اپنا سر اخبار سے نکالا تو نمرہ کو پڑا دیکھ وہ گھبرا گئے تھے “نمی میری جان” وہ تڑپ کر اُس کے پاس آئے تھے اور اسے اُٹھا کر اوپر کی جانب بھاگے تھے الفت بیگم ان کی چیخ و پکار سن کر خود بھی تیزی سے اوپر کی جانب بڑھیں تھیں اور سامنے نمرہ کو بے سدھ دیکھ کر ان کہ ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے “نمرہ میری بچی کیا ہوا؟” وہ اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کا گال تھپتھپانے لگی “اشرف کیا ہوا ہے میری بچی کو؟” وہ رو رہی تھیں “میں نے ڈاکٹر کو کال کی ہے الفت ہماری نمی کو کچھ نہیں ہوگا” وہ ان کو حوصلہ دیتے ہوئے بولے حالانکہ وہ اپنی اکلوتی لخت جگر کو دیکھ کر خود بھی ڈر گئے تھے تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر آگیا تھاکیا ہوا ہے ڈاکٹر میری بچی کو؟” “کچھ نہیں ان کو ٹینشن کی وجہ سے نروس بریک ڈاؤن ہوگیا تھا اور کوئی مسئلہ نہیں ہے میں نے انہیں سکون آور انجیکشن لگا دیا ہے ابھی وہ سو رہی ہیں تھوڑی دیر تک یہ ہوش میں آجائینگی آپ یہ دوائیاں کھلائیں انشاءاللہ بہتر ہوجائے گی” انہوں نے نسخہ ان کی طرف بڑھایا “شکریہ ڈاکٹر آئیں میں آپکو باہر تک چھوڑ دوں” انہوں نے مسکرا کر نسخہ تھاما اور انہیں چھوڑنے باہر کی جانب آگئے ڈاکٹر چلے گئے تو وہ بھی دوائیاں لینے چلے گئے تھے وہ تھوڑا سا کسمسائی تھی اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولی تھیں اور اپنے اوپر اُسی بلے کو جھکے دیکھ کر وہ چیخ کر اُٹھ بیٹھی تھی اس کا وجود تھرتھر کانپ رہا تھا ڈاکٹر چلے گئے تو وہ بھی دوائیاں لینے چلے گئے تھے وہ تھوڑا سا کسمسائی تھی اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولی تھیں اور اپنے اوپر اُسی بلے کو جھکے دیکھ کر وہ چیخ کر اُٹھ بیٹھی تھی اس کا وجود تھرتھر کانپ رہا تھا۔ “نمرہ میری بچی کیا ہوا؟” الفت بیگم جن کی ابھی آنکھ لگی تھی اس کہ چیخ پر وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھیںاممم۔امی یی۔۔یہ بب۔۔۔بلا ؟”وہ ہکلائی تھی “ارے یہ وہی تو بلا ہے جو تو لے کر آئی تھی اب کیا ہوا؟” وہ اس بلے کو دیکھ کر ناگواری سے بولیں”مم۔۔مگر ” “اسے دفع کرتو بتا تو ٹھیک ہے؟” انہوں نے اس کا پسینہ سے تر چہرہ اپنی جانب موڑا تو نمرہ نے سر اثبات میں۔ہلادیا “چل تو آرام کر میں کچھ کھانے کے لئے لاتی ہوں تیرے لئے” وہ اس کا گال تھپتھپاتی اُٹھ کر چلی گئیں تبھی اذانوں کی آواز آنے لگی نمرہ نے سامنے لگی وال کلاک پر دیکھا تو وہاں مغرب کی اذان کا وقت ہورہا تھا اس کے دماغ میں جھماکا سا ہواوہ ہمیشہ مغرب کہ وقت ہی دیکھائی دیتا ہے اگر یہ بلا کوئی اور ہوا تو اپنا سب کچھ بدلے گا ضرور” وہ سوچتی ہوئی بولی اور اپنے اوپر سے کمبل ہٹا کر وہ اُٹھ کھڑی ہوئیپاؤں میں چپل اُڑس کر وہ گیلری کا دروازہ دھکیلتی گیلری میں آگئی وہ واپس سامنے دیکھنے لگی کتا آج بھی بھونک رہا تھا اور آج اُسے اس کتے کے بھونکنے کا مفہوم سمجھ آیا تھا اچانک اس کے جسم میں ٹھنڈ طاری ہونے لگی تھیاُسے اپنے قریب پھر کسی کا احساس ہوا تو وہ بغیر دیر کئے پلٹی تھی ساے وہ بلا بیٹھا تھا آج اس کا وہی روپ تھا جو اس دن تھا سرخ ہوتی آنکھیں خون سے لت پت منہ اور نوکیلے ناخنوں پر بھی خون تھا جس میں عجیب سی مہک آرہی تھی شاید وہ کسی انسان کا خون تھا تبھی نمرہ کی نظر سامنے لگے شیشہ پر پڑی اور وہ ہقا بقا سی اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگی اس کہ چہرے پر کسی چیز کہ مارنے کے نشان تھے اور یہ خون نمرہ کا ہی تھا “کک۔۔۔کون ہو تم؟ اور۔۔اور کک۔۔کیا چاہتے ہہ۔۔ہو؟” وہ بامشکل بولی بلے نے کوئی جواب نہ دیا “میں جانتی ہوں تم بب۔۔بلے ننن۔۔۔نہیں ہو.” وہ چیخی تھی تبھی وہ بلا گردن جھکا گیا اور یکدم وہاں دھند سی ہونےلگی نمرہ نے چہرہ کے سامنے دونوں ہاتھ رکھ دئیےآہستہ آہستہ وہ دھند مٹتی گئی اور جب اس نے سامنے دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہوگئے وہ چیخنا چاہتی تھیمگر حلق میں ہی اس کی چیخ اٹک کر رہ گئی وہ بہت ہی خطرناک حد تک خوفناک شخص تھا اور شاید وہ اسی قبرستان کا تھا “میں بھی تمہاری طرح بہت خوبصورت تھا مگر تم جیسی ہی خوبصورت لڑکی نے مجھے دھوکا دے دیا تھا” وہ اس نے قریب آیا تھا جب نمرہ اس سے دو قدم پیچھے ہٹی تھی اور ریلنگ سے جا چپکی تھی “تت۔۔تو پپ۔۔پھر ؟”وہ ہکلائی”تو پھر یہ کہ اب مجھے تم پسند آگئی ہو اور اب میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا اور اگر کسی نے تم پر نظر ڈالی تو میں اُسے بھی ختم کردونگا” وہ سرگوشیانہ انداز میں بولا اور اس کا گال تھپتھای “پپ۔۔پلیز مم۔۔۔مجھے چچ۔۔۔چھوڑ دو۔۔۔مم۔میں نن۔۔نے تمہارا کک۔کیا بگاڑا ہے؟” وہ منت کرتے ہوئے بولی”ارے ایسے کیسے ؟مجھے تم پسند آئی ہو اور مجھے جو پسند آتا ہے میں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا” اس کی آواز بھی اس کی طرح خطرناک تھی نمرہ کو اپنے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑتے محسوس ہوئے اس نے زور سے آنکھیں میچ لیں اور اگلے ہی پل وہ جن اس کے اندر گھس گیا تھا نمرہ کو سمجھ نہ آیا اور جب آیا تب تک وہ کسی اور کہ قبضہ میں تھی “اب یہ میری ہے” وہ نمرہ کے جسم میں موجود تھا اور قہقہہ لگا کر ہنسا تھا اور واپس چل کر بیڈ پرآکر لیٹ گیا اس نے اپنے بال پونی سے آزاد کردئیے تھے اور آگے کر لئے تھے اس کی آنکھیں سفید ہوگئی تھیں مگر کسی کی آہٹ پر وہ بلکل نارمل سی ہوگئی تھی“بیٹا یہ کھانا کھا لو”، انہوں نے کھانے کی ٹرے اس کی جانب بڑھائی جسے اس نے دھاڑتے ہوئے پھینک دی “دفع ہوجا یہاں سے بڑھیا.” وہ دھاڑا تھا اور الفت بیگم تو اس کہ انداز پر حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئیں تھیں “یہ کیا کہہ رہی ہو نمرہ؟” انہوں نے حیرت سے کہا “میں نے کہا دفع ہوجا نہیں تو میں اس کو نقصان پہنچاؤنگا سمجھی.” وہ غرایا تھا اور الفت بیگم کو اس کا لہجہ کچھ سمجھ نہ آیا انہوں نے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگایا “میری بچی یہ کیا حالت بنا کر رکھ دی ہے اپنی؟” وہ نم لہجہ میں بولیں تبھی اس جن نے اُنہیں دھکہ دیا تھا اور دھکہ اس زور کا تھا کہ وہ بیڈ سے نیچے گر گئیں تھیں انہیں کچھ گڑبڑ لگی وہ بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں اور لاؤنج میں آکر ٹیلیفون میں کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگیں “ہیلو اشرف صاحب پلیز جلدی گھر آجائیں” وہ روتے ہوئے بولیں اور کال کاٹ دی تھوڑی ہی دیر می اشرف صاحب آگئے تھے “کیا ہوا ہے بیگم؟” وہ پریشانی سے بولے “اشرف صاحب مجھے نمرہ ٹھیک نہیں لگ رہی آپ میرے ساتھ چلئیں” وہ گھبراتی ہوئی بولیں اور انہیں کھینچتی ہوئیں اوپر لے گئیں یہ دیکھ لیں۔۔۔انہوں نے سامنے دیکھا تو سب کچھ ٹھیک تھا اور نمرہ سکون سے سو رہی تھی الفت بیگم کی آنکھیں پھیل گئیں “یہاں تو کچھ نہیں ہے بیگم؟” وہ حیرت سے بولے”میرا یقین کریں اشرف صاحب نمرہ ابھی ٹھیک نہیں تھی” وہ روتے ہوئے بولیں “بیگم آپ کا وہم ہوگا؟ آپکو لگتا ہے نمرہ کی زیادہ ہی فکر ہوگئی ہے اس لئے آپ ایسا کہہ رہی ہیں؟” وہ انہیں دلاسہ دیتے ہوئے باہر نکلے تھے”آپ میری بات کا تو یقین کریں” وہ تاسف سے بولیںاچھا آپ ایک کام کریں کسی مولوی کو بلوا لیں بس میرا وہم دور کردیں” وہ حل پیش کرتی ہوئی بولیں تو انہیں بھی یہی ٹھیک لگا “ٹھیک ہے بیگم ابھی آپ سو جائیں ہم صبح دیکھتے ہیں” وہ انہیں تسلی دیتے ہوئے کمرے میں لے گئےوہ سمجھ تو چکے تھے کچھ گڑبڑ ہے کیونکہ الفت بیگم کو اتنا بڑا وہم نہیں ہا تھا وہ پوری رات ان کی آنکھوں میں کٹی تھی صبح سویرے ہی وہ اپنے جاننے والے مولوی کو لے آئے تھے وہ جیسے ہی انہیں لے کر آئے وہ گھر میں قدم رکھنے سے پہلے ہی رک گئے”یہاں کوئی غیر مخلوق ہے” وہ پورے گھر کو دیکھتے ہوئے بولے “جی مولوی صاحب تبھی تو میں آپکو لے کر آیا ہوں پلیز آپ اسے یہاں سے دور لے جائیں” وہ منت کرتے ہوئے بولانہوں نے ایک پتوں کی لڑی پر کچھ پڑا اور وہ اشرف صاحب کی جانب بڑھایا”یہ یہاں دروازے کے بیچ میں باندھ دو اس سے وہ مخلوق باہر نہیں جائے گی” وہ سنجیدگی سے بول کر اندر کی جانب بڑھ گئے اور اشرف صاحب نے وہ ان کے کہنے کے مطابق باندھ دیکہاں ہے تمہاری بیٹی؟””اوپر کمرے میں، صبح میں کمرے سے عجیب سی آوازیں آرہی تھیں اس لئے میں نے دروازہ بند کردیا ہے کہیں وہ باہر نہ نکل جائے” وہ سب بتاتے ہوئے بولے“کہاں ہے اس کا کمرہ؟” وہ تسبیح کہ دانے گراتے ہوئے بولےآئیں میں آپکو لے چلوں” انہوں نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا“نہیں تم مجھے بتا دو تمہارا جانا ٹھیک نہیں ہوگا” وہ ہاتھ کہ اشارہ سے اُسے روکتے ہوئے بولے تو وہ انہیں کمرے تک لے گئے اور خود باہر کھڑے ہوگئے دروازہ کھلا دیکھ کر وہ پریشان ہوگئے”بچے تم تو کہہ رہے تھے کہ تم نے دروازہ بند رکھا تھا؟” وہ پیشانی پر بل ڈال کر بولے”جی میں نے بند کردیا تھا” وہ الجھ کر بولے “کہیں میری بیوی نے تو؟” یکدم ان کے ذہن میں جھماکا ہوا.”اگر ایسا ہے تو یہ ٹھیک نہیں اسے میرے آنے کا علم ہوگیا ہوگا تمہاری بیوی کو خطرہ ہے”انہوں نے دروازہ کھولا تو الفت بیگم اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں اور ہاتھ پیر مار رہی تھیں.”اشرف مم۔۔مجھے بب۔۔بچائیں” وہ گلے ہر ہاتھ رکھے گڑگڑائیں “بابا یہ کیا؟” وہ پریشان سے ہوگئے انہوں نے کچھ پڑا تو وہ نیچے کو آگئیںنمرہ کہا ہے الفت؟” اشرف صاحب نے پوچھا تو انہوں نے گیلری کی طرف اشارہ کیا وہ سب گیلری کی جانب بڑھےجو گیلری کی دیورا پر بیٹھا گوشت کی کچی بوٹیاں چبا رہا تھا وہ بھی کسی انسانا گوشت تھا مولوی صاحب نے اُنہیں ہاتھ کہ اشارے سے پیچھے رہنے کو کہا اور گیلری کا دروازہ بند کردیا گیلری کا دروازہ بند ہونے پر اس نے اپنے شغل سے ہاتھ روکا تھا اور کھا جانے والی نظروں سے مولوی صاحب کو گھورا تھا”اوئے تو یہاں کیا کر رہا ہے؟ چلا جا یہاں سے نہیں تو میں یہاں سے کود جاؤنگا اور یہ لڑکی مر جائے گی” وہ اپنی مردانہ آواز میں بولا مولوی صاحب آنکھیں بند کرے کسی چیز کا ورد کرنے میں محو تھے انہوں نے ایک مٹی کی پیالی سے مٹی نکالی اور ہتھیلی پر رکھ کر پھونک ماری وہ اتنی سی مٹی بھی اس کو ہلا گئی تھی وہ چیخنے لگا تھا”آپ لوگ جلدی سے رسی کا بندوبست کریں” انہوں نے ہدایت دی اور دوبارہ آنکھیں بند کرلیں ان کے لب پھڑپھڑا رہے تھے اور مٹی وہ اس کی جانب ہھونک رہے تھے وہ کراہ کر زمین بوس ہوگیا تھا تب تک اشرف صاحب رسی لے آئے تھے اسے اُٹھا کر انہوں نے بیڈ پر لٹایا اور اس کے ہاتھ پاؤں بیڈ سے باندھ دئیے وہ یہ سب اپنے لخت جگر کے ساتھ نہیں کرنا چاہتے تھے مگر مجبور تھے انہیں اپنی بیٹی کی جان عزیز تھی وہ مزحمت کر رہا تھا مگر کامیاب نہ ہو پارہا تھا “چھوڑ مجھے چھوڑ نہیں تو کوئی زندہ نہیں بچے گا کوئی نہیں” وہ اپنی پوری جان لگا رہا تھا مگر مولوی نے ایکگھیرا بنا دیا تھا بیڈ کے گرد اگر وہ رسی کھول بھی لیتا تو وہ اس جگہ سے باہر نہ جا سکتا اچانک اس کے خطرناک آثار نرم پڑ گئے اور نمرہ کی رونے کی آواز ابھری “امی مجھے کھولیں امی مجھے ڈر لگ رہا ہے” وہ تڑپ کر بولی “میری بچی” وہ بھی ایک ماں تھیں اپنی بیٹی کی تڑپ کی آواز سن کر وہ آگے بڑھی تھیں اور کھولنے ہی لگی تھیں “رکو بیٹی! یہ غلطی مت کرنا وہ تمہیں بھٹکا رہا ہے” وہ اُسے روکتے ہوئے بولے تو اس نے غصہ سے ہنکارا بھرا اور الفت بیگم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ دو قدم ہیچھے ہٹی اور رخ پھیر کر کھڑی ہوگئیں “کیوں اس لڑکی کہ پیچھے پڑا ہے؟ چھوڑ دے وہ تجھے کیا دے دیگی چھوڑ دے اسے” وہ اُسے سمجھاتے ہوئے بولے اس نے قہقہہ لگایا مجھے یہ اچھی لگی ہے تم لوگ جو بھی کرلو میں اسے نہیں چھوڑونگا ایک لڑکی نے مجھے دھوکا دیا اور میں اس سے اپنا بدلہ پورا کرونگا” وہ بیٹھا تھا اور دھاڑتے ہوئے بولا تھا مگر پھر دوبارہ لیٹ گیا تھا.”تجھے اس معصوم بچی کو چھوڑنا ہی ہوگا ” مولوی صاحب کہ لب پھڑپھڑا رہے تھے اور وہ درد سے تڑپ رہا تھااور چند پل بعد اس کا جسم جھٹکے کھا کر ڈھیلا پڑ چکا تھا اور پھر مولوی صاحب نے آنکھیں کھول لی تھیں”اس کہ گلے میں یہ تعویز باندھ دو” انہوں نے تعویز اشرف صاحب کے ہاتھ مین پکڑیا وہ جیسے ہی اس کی جانب تعویز پہنانے کے لئے بڑھے اس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں اور گردن ادھر سے ادھر کرنے لگا”نہیں””نہیں””نہیں”وہ چیخ رہا تھا اور” نہیں” “نہیں” کی گردان الاپ رہا تھ اس کا جارحانہ انداز دیکھ اشرف صاحب رکے تھے اور مولوی صاحب کو دیکھا تھا”اس کی مت سنو پہناؤ اسے یہ تعویز اس کو میں دیکھ لونگا “.وہ ان کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر بولے تو اشرف صاحب نے سر ہاں میں ہلایا اور کافی تگ و دو کہ بعد آخر کار انہوں نے وہ تعویز اس کے گلے میں ڈال دیا تھا اس نےاشرف صاحب کو بہت نقصان پہنچایا تھا مگر انہیں اپنی بیٹی کو بچانا تھا چند گھنٹہ اور محنت کہ بعد آخر کار وہ اس کے جسم سے نکل کر نیست و نابود ہوگیا تھا سب نے ہی شکر کا کلمہ پڑھا تھا نمرہ نے آہستہ سے آنکھیں کھولی تھیں ایک دن میں ہی اس کی آنکھوں کے نیچے ہلکے اور اس کا جسم نحیف سا ہوگیا تھا وہ ہڑبڑا کر اُٹھی تھی مگر رسی کی وجہ سے دوبارہ لیٹ گئی تھی اس دفعہ الفت بیگم نے اس کی رسی کھولنے سے پہلے مولوی صاحب کو دیکھا تھا کیونکہ اب وہ کوئی حماقت برداشت نہیں کرسکتی تھیںاب کھول دو اس بچی کہ ہاتھ بہت بہادر ہے اتنی مشکلوں کو پار کرکے آئی ہے” انہوں نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیراالفت بیگم نے اس کی رسیاں کھول دی تھیں اور وہ ماں کی آغوش میں چھپ کر سسک پڑی تھی اشرف صاحب بھی نم آنکھوں سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہے تھےوہ کافی سہم گئی تھی اس حادثہ کے بعد اب وہ بالوں کو کھلا نہیں چھوڑتی تھی اور مغرب کے وقت وہ گیلری میں نہیں جاتی تھی بلکہ مغرب کہ وقت اپنے امی ابو لے کمرے میں ہی رہتی تھی اس کی چھوٹی سی غلطی نے اسے اتنی خطرناک مشکل میں ڈال دیا تھا وہ اب تھوڑی تھوڑی سنبھل رہی تھی انہوں نے گھر بھی تبدیل کرلیا تھا اس لئے آج وہ باہر نکلی تھی گھومتے ہوئے اُسے آدھے سفید اور آدھے سیاہ رنگ کا ایک بلے نظر آیا اس کو دیکھ کر وہ اس کی جانب بڑھی تھی بلے کا رخ دوسری جانب تھا نمرہ نے اُٹھا کر اُس کا رخ جیسے ہی اپنی جانب کیا وہ چیخ پڑی اور بلے کو نیچے پھینک دیا ” وہ گیا نہیں ہے” وہ بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی تھی اور پھر کبھی اس جگہ کا رخ نہ کیا تھا . 🍁 ختم شد 🍁

---Advertisement---

Leave a Comment