Naya Ghar Horror Story in Urdu
Naya Ghar: Ek Horror Story
Naya Ghar ek ajeeb sa horror story hai, jo ki ek sachchi dastan par basee hai. Yeh dastan ek chhote se gaon ki hai, jahan par ek ladka tha, jis ka naam Ahmad tha. Ahmad ek ajeeb sa ladka tha, woh hamesha apne gaon ki purani dastanen sunta tha. Ek din, Ahmad ko ek purani dastan sunne ko mili, jis mein ek ajeeb sa ghar ke baare mein bataya gaya tha. Yeh ghar Naya Ghar ke naam se mashoor tha. Horror story in Urdu Naya Ghar ki dastan sun kar logon ko bohot dar laga.
Ahmad ne yeh dastan sun kar socha, “Kya yeh ghar sach mein hai?” Woh is ghar ki talash mein nikal pada. Woh gaon se bahar nikal kar ek sunsaan raah par chal pada. Raah mein woh ek ajeeb sa ghar dekha, jis mein koi bhi nahin tha. Ahmad ko yeh dekh kar bohot dar laga, lekin woh yeh jaanna chahta tha ki yeh ghar ki sachchai kya hai.
Ahmad us ghar mein dakhil hua aur dekha ki woh yahan akela nahin hai. Woh yahan par ek ajeeb sa cheez dekha, jis mein ek ladki ki rooh thi. Ahmad ko yeh dekh kar bohot dar laga aur woh yahan se bhag gaya. Woh apne gaon mein wapas aa kar sab logon ko yeh baat batayi. Sab logon ne Ahmad ki baat sun kar us ghar ko chor diya. Horror story in Urdu Naya Ghar ki dastan sun kar logon ko bohot dar laga. Yeh horror story in Urdu Naya Ghar ke naam se mashoor ho gayi.
نیا گھر
السلام علیکم.
آج جو کہانی میں آپ لوگوں کو سنانے جا رہا ہوں یہ کہانی میری باقی کہانیوں کی طرح ہی ایک حقیقی واقعہ ہے.یہ کہانی میں نے اپنے کسی قریبی دوست سے سنی تھی جو کہ اس کے ساتھ کچھ سال پہلے پیش آئ تھی .اس کے مطابق آج سے قریب 10 سال پرانی بات ہے جب ہم لوگ سیالکوٹ میں رہتے تھے. جس گھر میں ہم رہتے یہ گھر ہم نے “رینٹ” پر لیا ہوا تھا اور مکان مالک بہت بری “نیچر” کا بندا تھا ہر ماہ “رینٹ” بڑھا دیتا تھا اور جب بڑھانے کی وجہ پوچھو تو لڑنے لگ جاتا تھا. کچھ ماہ تک تو یہ سب چلتا رہا پھر میرے والد صاحب نے ایک اور گھر دیکھ لیا. اس گھر کا “رینٹ” تو کم تھا ہی پر اس کے ساتھ ساتھ مکان مالک بھی اچھی نیچر کا لگ رہا تھا. میرے والد صاحب نے یہ سب باتیں آ کر ہم لوگوں سے “شئیر” کی یا کہہ لیجیے کہ اپنا فیصلہ سنایا. ابھی مہینہ پورا نہیں ہوا تھا اس لئے ہم نے کچھ دن اس گھر میں مزید رکنے کا سوچا. اس نے بتایااگلے دن میں والد صاحب اور بڑا بھائ یعنی ہم تینوں نیا گھر دیکھنے کے لئے گئے جس کے بارے میں گزشتہ رات والد صاحب بتا رہے تھے. یہ گھر ہمارے اس وقت کے موجودہ گھر سے کچھ فاصلے پر تھا. یہ ایک نئی آبادی تھی مطلب کوئ نئ جگہ تھی جیسے آج کل “ہاؤسنگ سوسائیٹیز” ہوتی ہیں شاید اسی طرح کا کچھ کہہ لیں. یہ گھر آبادی سے کافی فاصلے پر تھا اور اس کے نزدیک بھی ابھی تک کوئ گھر یا عمارت تعمیر شدہ نہیں نظر آئ. بس مکمل میدان نما سا علاقہ تھا. گھر بنا تو ٹھیک ترز سے تھا مگر تھا بالکل بے رونق اوپر سے علاقہ بھی بے نور.. اس نے بتایا میں اس گھر میں آنے پر خوش تھا لیکن یہاں خوف معلوم ہوتا تھا شاید اس لئے بھی کہ یہ آبادی سے ہٹ کر تھا..والد صاحب اس مکان کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے تھے . وجہ یہ تھی کے اب وہ پرانے مالک مکان کے “ایٹیٹیوڈ” سے تنگ آ چکے تھے اور شاید اس لئے بھی کہ اس کا “رینٹ” بھی مناسب تھا . یہاں سب کچھ نارمل تھا پر معلوم نہیں کیوں ایک نحوست محسوس ہونے لگی تھی.
نیا گھر. پارٹ 2رائیٹر: طلحہ
یہاں سب کچھ نارمل تھا پر معلوم نہیں کیوں ایک نحوست محسوس ہونے لگی تھی. میں اس بات کو لے کر کچھ گھبرا رہا تھا. ایک ڈر سا محسوس ہوتا تھا اس گھر کو دیکھ کراوپر سے صحن میں ایک پرانا برگد کا درخت لگا ہوا تھا جو دیکھنے میں بے حد پرانا تھا. اس کی شاخیں ایسے معلوم ہوتی تھیں جیسے کوئ بال کھولے ہمیں مسلسل دیکھ رہا ہے.میرے بڑے بھائ نے بھی یہ بات والد صاحب کو بولی: ابو آپکو یہ گھر عجیب نہیں لگ رہا؟.جس پر والد صاحب نے بس اتنا ہی کہا: نہیں مجھے تو کچھ عجیب نہیں لگا.اس نے بتایا.اس گھر میں کچھ بلیاں بھی نظر آئیں اور عجیب بات یہ تھی کہ وہ بلیاں ہم لوگوں سے بالکل بھی خوفذدہ نہیں تھیں..اگلے دن ہم لوگوں نے گھر کی صاف صفائ شروع کر دی. صفائ کے دوران ہمیں ایک کمرے میں کچھ گیندے کے پھولوں کی پتیاں ملی (بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پھول ہندو لوگ اپنی عبادت کے دوران استعمال کرتے ہیں) خیر دو دن بعد ہم لوگ یہاں “شفٹ” ہو گۓ. اس نے بتایا کہ جب ہم سامان کے ساتھ اس گھر پہنچے تو گھر کے “مین گیٹ” کے بالکل سامنے ایک کالی بلی بیٹھی تھی. اس بلی کو دیکھ کر میرے والد صاحب نے دھتکار دیا پر وہ بھاگنے کے بجاۓ غرانے لگی اور اس طرح کھڑی ہو گئ جیسے ابھی ہم پر حملہ کر دے گی. خیر گاژی سے سامان اتارا جانے لگا اتنی دیر میں وہ بلی معلوم نہیں کہاں غائب ہو گئ. ہم نے گھر ایک دن پہلے ہی آ کر صاف کر دیا تھا اس لئے بس سامان رکھنے کی ہی تکلیف رہ گئ تھی. سامان رکھ کے ہم لوگ بالکل تھک گۓ تھے رات کا کھانا کھا لینے بعد ہم لوگ اپنے اپنے بستروں پر جاتے ہی تھکن کی وجہ سے سو گۓ. رات کے کسی پہر ہمیں صحن سے بلیوں کے رونے کی آوازیں آنے لگیں. جن کو سن کر ہم لوگ خوف کے دائرے میں آ گۓ..ابو اٹھ کر باہر گۓ اور انہیں دھتکار دیا. جس کے بعد ہماری جان میں جان آئ..صبح سب لوگ اٹھے تو صحن میں کسی جانور کا کٹا ہوا سر پڑا ہے اور ایک بلی اسے نوچ نوچ کر کھا رہی ہے..میں نے جب اسے دیکھا تو ڈر کے مارے شور مچا دیا.عجیب بات تو یہ تھی کہ وہ بلی اس شور کے باوجود بھی وہاں سے نہیں بھاگی جیسے اسے فرق ہی نہیں پڑا.ابو نے ایک لکڑی کی چھڑی ہاتھ میں اٹھائ اور دو تین بار زمیں پر ماری جس سے وہ بلی سر سمیت بھاگ گئ.مجھے حیرت ہوئ کے ایک بلی کیسی کسی بڑے جانور کا سر اپنے دانتوں میں دبا کر بھاگ رہی ہے وہ سر تو شاید بلی سے بھی بڑا لگ رہا تھا ..ایک عجیب بات تو یہ تھی کہ اس پورے علاقے میں کوئ بھی قصائ نہیں تھا تو پھر یہ بلی وہ سر لائ کہاں سے تھی.. وہ سر بالکل ایسا تھا جیسے اس کے اوپر کی کھال کسی نے انتہائ مہارت سے اتاری ہو اور ایسا کام کو کوئ قصائ ہی کر سکتا ہے. اس نے بتایا ہم لوگ یہ سب دیکھ کر بہت ڈر گۓ تھے پر ابو نے ہنس کر کہا اس میں ڈرنے والی تو کوئ بات نہیں ہے. یہ اتوار کا دن تھا اس لئے ہم سب لوگ گھر ہی میں تھے. میرا بھائ اور میں آس پاس کسی پرچون کی دکان کی تلاش میں موٹر سائیکل پر نکلے تاکہ کچھ راشن وغیرہ لے آئیں. جب ہم گھر سے نکلنے لگے تھے تو ہم دونوں بھائیوں نے درخت پر وہی بلی دیکھی وہ ہماری جانب مسلسل ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہی تھی.
نیا گھر
پارٹ 3رائیٹر: طلحہ
میرا بھائ اور میں آس پاس کسی پرچون کی دکان کی تلاش میں مور سائیکل پر نکلے تاکہ کچھ راشن وغیرہ لے آئیں. جب ہم گھر سے نکلنے لگے تو ہم دونوں بھائیوں نے درخت پر وہی بلی دیکھی وہ ہماری جانب مسلسل ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہی تھی ..اس گھر میں بہت سی بلیاں تھیں پر اس بلی سے عجیب سا خوف آنے لگا تھا. اسکی ایک آنکھ تھی ہی نہیں. سب بلیاں کالی تھیں پر اس بلی کی ایک آنکھ ہی اسکی پہچان تھی. اس نے بتایا ہم نے جلد ہی ایک پرچون کی دکان ڈھونڈ لی اور سامان کے کر واپس آ گۓ..دن اسی چہل قدمی میں گزر گیا اور رات ہو گئ.رات کے کسی پہر اسکے والد صاحب کی آنکھ کھلی اور وہ شاید باتھ روم کے لئے نکلے تو وہی بلی نظر آئ انہوں نے اسے بھگانے کی کوشش کی تو وہ کہیں غئب ہو گئ.. اس نے بتایا.گرمیوں کے دن تھے اور ہمیں اس گھر میں رہتے ہوۓ ایک ہفتہ ہو گیا تھا اور روز ہی کچھ نہ کچھ عجیب دیکھنے کو ملتا. اب والد صاحب کو بھی یہاں کسی پراسرار چیز کے ہونے کا احساس ہو گیا تھا. پر شاید وہ اس لئے خاموش تھے کہ ہماری “فیملی” میں ایک وہی تھے جو ہم سب کو سمبھالے ہوۓ تھے. اس نے بتایا.یہ سلسلہ جاری رہا ہم عشاء کے بعد ہر رات ہی کچھ نیا دیکھتے. جیسے کے درخت پر سرخ روشنیاں بلیوں کا رونا پوجا کے پھول جو صفائ کے دوران ملتے رہتے تھے. اس نے بتایا طلحہ سچ بتاؤں تو اب شاید ہمیں اس سب کی کہیں نا کہیں عادت سی ہو گئ تھی. اب بلیوں کے رونے پر ابو بھی انھیں دھتکارتے نہیں تھے بس خاموش ہو کر یہ سب سنا کرتے تھے یا کبھی اس سب کو “اگنور” کر دیتے. پر ایک چیز تو ظاہر تھی اور وہ یہ کے ہم سب گھر والوں کا “ایٹیٹیوڈ” کافی بدل گیا تھا . ایک رات تو حد ہی ہو گئ ہم سب ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہوۓ تھے اور کسی ضروری “ٹاپک” پر “ڈسکشن” چل رہی تھی کے ہمیں صحن میں سے ناچنے گانے کی آوازیں آنے لگیں. معلوم پڑتا تھا جیسے کچھ عورتیں کچھ گا رہی ہیں. شاید کسی چیز کی خوشی منا رہی ہیں . ہم لوگوں کے آس پاس تو کوئ گھر تھا نہیں اور گھر کے باہر بھی کچھ ایسا نہیں تھا تو یہ بات واضح تھی کے آواز صحن سے آ رہی ہے. ہم لوگ اتنے خوف زدہ ہو گۓ کے اتنی ہمت نہیں ہوئ ایک بار باہر جا کر دیکھ لیں…(میں خاموشی سے اسکی بات سن رہا تھا).پھر اس نے کہا جانی آج بھی وہ سب سوچتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں. پھر میں نے اس سے پوچھا. یار تم لوگوں نے عالم سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ میری اس بات کا اس نے جواب نہیں دیا اور کہانی آگے بڑھائ. (میں نے بھی اسرار نہیں کیا)اس نے بتایا صبح والد صاحب مکان مالک سے بات کرنے اس ی طرف گۓ اور ساری رام کہانی اسے سنائ. پہلے تو اس نے ماننے سے انکار کر دیا اور یہ بات کہہ ڈالی: صوفی صاحب آپ اس دور میں بھی پتھروں کے زمانے کی باتیں کر رہے ہے ہیں؟” جس پر والد صاحب غصہ ہو کر بولے ” اللہ کے بندے یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور سنا ہے تم اب مجھے جھٹلا رہے ہو کیا میں تم سے اتنی دور صرف مزاق کرنے آیا ہوں؟ مجھے کوئ پریشانی ہے تو یہ سب کہہ رہا ہوں اور اب میں اپنی بیوی بچوں کو اس عزاب میں نہیں رکھنا چاہتا” وغیرہ اس نے بتایا والد صاحب کی لمبی چوڑی داستان سن کر اس کے منہ سے بھی سچ نکل گیا. اس نے بتایا کے جو بھی اس گھر میں آتا ہے زیادہ وقت نہیں رکتا پر وہاں جو کوئ بھی ہے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا. آپ کو یہ گھر کم پیسوں میں “رینٹ” پر دیا .. ابھی اس نے اتنا ہی بولا تھا کے والد صاحب نے اسے دو تین سنا دیں اور واپس آ گۓ. اس نے بتایا جب وہ گھر پہنچے تو والدہ گھر سے باہر کھڑی ہوئ تھیں وہ بہت ڈری ہوئ تھیں معلوم کرنے پر انہوں نے بتایا: “میں نے صفائ کے دوران برآمدے میں ایک آدمی کو دیکھا . اس کے ماتھے پر ہندوؤں والا نشان لگا تھا.وہ آدمی دیکھنے میں بےحد خوفناک تھا اسکی ایک آنکھ نہیں تھی” والد صاحب نے امی کو کسی طرح بہلایا اور گھر لے آۓ. میں سکول میں تھا جب والد صاحب اور بھائ مجھے لینے آۓ. ہم لوگ اپنی پھوپو کی طرف آ گۓ جو اسی شہر میں رہتی تھیں. کچھ دن وہیں رکے رہے. جب نیا مکان ملا تو اس منحوس گھر سے سب سامان اٹھا کر دوسرے گھر میں شفٹ ہو گۓ. اور یہ آخری بار تھی جب میں نے اس گھر کو دیکھا تھا… اس نے بتایا یہ میری زندگی کے خوفناک ترین ایام تھے وہ گھر وہ بلی کی آوازیں وہ ناچنے گانے کی آوازیں مجھے اب بھی اکثر خواب میں ڈرا دیتی ہیں.