Machli ki Saza Good Moral Story In Urdu
Ek achcha insaan ek achche dost ke saath, ek pyaar bhari zindagi guzaar raha tha. Woh hamesha apne dost ki madad karta tha, chaahe woh koi bhi musibat ho. Ek din, uske dost ko ek bada nuqsaan hua, aur woh bohot pareshan ho gaya. Lekin usne hargiz apne dost ko akela nahi chhoda.
Aur phir, ek din, uske dost ko ek bada faida hua, aur woh bohot khush ho gaya. Lekin is baar, usne apne dost ko khushiyon mein akela chhoda. Usne socha ki ab woh khush hai, toh main kyun madad karo?
Lekin phir, uske dost ne usse kaha, “Tumne mere saath kabhi kabhi madad ki, lekin kabhi kabhi mere saath nahi bhi ki. Lekin main tumse kabhi kabhi madad ki, aur kabhi kabhi tumse nahi bhi ki. Isliye, hum dono ek dusre ke saath hamesha madad karenge, chaahe koi bhi ho.”
Translation:
A good person was living a loving life with a good friend. He always helped his friend, no matter what the problem was. One day, his friend suffered a big loss and was very upset. But he never left his friend alone.
And then, one day, his friend got a big benefit and was very happy. But this time, he left his friend alone in his happiness. He thought, “Now he’s happy, so why should I help?”
But then, his friend said to him, “You sometimes helped me, and sometimes didn’t. And I sometimes helped you, and sometimes didn’t. That’s why we will always help each other, no matter what.”
Note: Please keep in mind that this is a machine-generated translation, and the nuances of the original Urdu text may be lost in translation.
مچھلی کی سزا
ایک دن شیخ چلی اٹھا تو بولا ماں آج میں نے کام کرنے کے بارے میں سوچا ہے اُس کی ماں نے اُس کی بات سنی اُن سنی کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا تو شیخ چلی ماں کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی گھر سے باہر نکل گیا آج اس نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ وہ کام کرے گا ۔اُس نے روٹیاں لیں اور سمندر کے کنارے پر آ کر بیٹھ گیا وہ تھوڑی تھوڑی روٹی توڑ کر سمندر میں پھینک رہا تھا مگر کوئی مچھلی روٹی نئی کھا رہی تھی شیخ چلی کو بہت دکھ ہوا وہ یہ دیکھ کررونے لگا اچانک پانی کی سطح پر ایک سنہری مچھلی آئی اور اُس سے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ بولا میں بے کار انسان ہوں ماں روز مجھے مارتی ہے میں کوئی ایسا کام کرنا چاہتا ہوں جس سے سب مجھ سے خوش ہوں یہ سن کر سنہری مچھلی بولی تم میرا انتظار کرو میں ابھی آتی ہوں یہ کہہ کر اس نے پانی میں ڈبکی لگائی اور تھوڑی دیر بعد جب وہ پانی کی سطح پر آئی تو اُس کے منہ میں ایک تھیلا تھا اس کو شیخ چلی نے کھولا تو اُس میں ہیرے جواہرات تھے سنہری مچھلی نے کہا جو انسان کے رزق کا انتظام کرے وہ بہترین انسان ہے اور یہ تمہارا ہے شیخ چلی نے یہ سنا تو بڑا خوش ہوا اور مچھلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہ تھیلی لے کر گھر کی طرف چل پڑا گھر پہنچ کر اُس کی تھیلی ماں کے حوالے کی تو وہ بہت خوش ہوئی اور اسی وقت بازار جا کر مٹھائی لے آئی اور سب محلے والوں کو کھلائی اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتی جاتی کہ شیخ چلی نے کیسے پیسے لیئے ہیں یہ سن کر محلے کا ایک لالچی شخص نے بھی سنہری مچھلی سے ہیرے جواہرات لینے کا فیصلہ کیا اور اگلے دن کانٹا لے کر سمندر کے کنارے بیٹھ گیا اور سنہری مچھلی کا انتظار کرنے لگا مگر مچھلیوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ اس شخص کی نیت کیسی ہے چنانچہ جب صبح سے شام ہو گی اور اُسے نا کامی ہوئی تو اُسے بہت غصّہ آیا اُس نے اگلے دن مچھلیوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور اگلے روز خود سمندر میں اُتر گیا کنارے پر چونکہ پانی کم تھا اس لیے وہ وہاں کھڑے ہو کر مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کرنے لگا مگر کافی دیر کے بعد بھی جب اُسے نا کامی ہوئی تو وہ گہرے سمندر کی طرف چل پڑا مگر جیسے ہی اُس نے سنہری مچھلی کو پکڑنے کی کوشش کی مچھلی نے اُسے گھسیٹ کر گہری پانی میں چھوڑ دیا ۔اب وہ باہر آنا چاہتا تھا اور مچھلی اُسے باہر نہیں آنے دے رہی تھی جب اُس کا سانس پھول گیا تو مچھلی کو رحم آ گیا اور اس نے اسے ساحل پر پھینک دیا جب اُسے ہوش آیاتو اُس نے لالچ سے توبہ کرلی اور گھر واپس آ گیا ۔