Lambay Balon wali ladki Horror Story in Urdu
The Urdu Horror Story “Lambay Balon Wali Ladki” is a masterpiece of contemporary literature, penned by the renowned author Tariq Ismail Sagar. This captivating tale is a testament to the power of Urdu storytelling, delving into the realm of the supernatural and exploring the darker side of human experience. Through the Urdu Horror Story “Lambay Balon Wali Ladki”, Sagar skillfully weaves a chilling narrative that showcases the best of Urdu horror.
At its core, the Urdu Horror Story “Lambay Balon Wali Ladki” is a gripping exploration of fear, superstition, and the unknown, cementing its place as a landmark in Urdu horror literature. Sagar’s masterful storytelling brings to life the world of his protagonist, navigating the treacherous landscape of a haunted existence, where the lines between reality and nightmare are blurred. The enigmatic figure of the long-haired girl remains etched in readers’ minds, symbolizing the horrors that lurk in the shadows.
The Urdu Horror Story “Lambay Balon Wali Ladki” remains a cherished favorite among literary enthusiasts, thanks to its masterful storytelling and chilling narrative. Sagar’s writing has ensured that this Urdu Horror Story continues to resonate deeply with readers, showcasing the power of Urdu storytelling to evoke emotions and spark imagination. If you haven’t already, immerse yourself in the haunting world of the Urdu Horror Story “Lambay Balon Wali Ladki” and discover why this tale remains a timeless classic in the world of Urdu literature, with “Lambay Balon Wali Ladki” being a must-read for fans of Urdu horror stories.
لمبے بالوں والی لڑکی
لمبے بالوں والی لڑکی (ایک روح کی سچی ڈراؤنی کہانی)
اس نے پردہ ہٹا کر کھڑکی سے باہر جھانکا۔سامنے نظر آنے والے منظرکو دیکھتے ہی اسے جھرجھری سی آگئی چاند کی ہلکی سی روشنی میں رہاشی علاقے میں موجود ایک پلاٹ پر قائم وہ چھوٹا سا قبرستان بہت عجیب لگ رہا تھا۔رومیسہ نے گھبرا کر کھڑکی کا پردہ چھوڑ دیا ویسے بھی آج نوید کی نائیٹ ڈیوٹی تھی ایسے میں گھر کی تنہائی اور کچھ دیر پہلے دیکھا گیا منظر اُس کی گھبراہٹ میں مزید اضافہ کر گیا۔اُس نے گھڑی میں ٹائم دیکھا ابھی صرف بارہ بجے تھے۔آج مالا واک کرنے اُوپر نہ آئی تھی ورنہ اسکا وقت اچھا گزر جاتا۔ویسے بھی جب سے سرد موسم کی اندھیری راتیں شروع ہوئیں تھیں۔مالا اوپر کم ہی آتی تھی۔کیونکہ اسے سردیاں کچھ خاص پسند نہیں تھیں۔جبکہ رومیسہ تو اس سرد موسم کی دیوانی تھی۔تھوڑی دیر بستر پر بیٹھ کراس کا خوف قدرے کم ہوا۔اس نے کمرے سے نکل کر باہر جھانکا تو اماں ہاجرا اپنے کمرے میں سونے جاچکی تھی۔رومیسہ نے کافی میکر نکالا،لاونچ میں رکھا ٹی وی چلایا ٹی وی کی آواز نے گھر میں پھیلی خاموشی کو ختم کر دیا۔وہ نہایت اطمینان کے ساتھ کافی بنا کر ٹی وی کے سامنے آ بیٹھی۔جہاں کوئی ٹالک شو چل رہا تھا۔ٹی وی دیکھتے دیکھتے اسے ٹائم کا پتہ نہیں چلا اور وہ وہیں صوفے پرسو گئی۔رومیسہ کی چھے ماہ قبل شادی ہوئی تھی۔اور وہ رخصت ہو کر نوید عالم کے ساتھ اس فلیٹ میں رہ رہی تھی۔کیونکہ اس کی ساس اپنے بڑے بیٹے کے پاس لندن رہتی تھی۔جبکہ نوید محکمہ گورنمنٹ کا ایک اعلی سرکاری آفیسر تھا۔جس کے باعث وہ اپنی نو کری چھوڑ کر لندن جا نے پر آمادہ نہ تھا۔یہی سبب تھا جو وہ اپنا آبائی گھر کرائے پر دے کر خود یہاں شہر کے ایک مہنگے علاقے کے لگژری فلیٹ میں رہا ئش پذیر تھے۔ جہاں رومیسہ کو اور تو کوئی مسئلہ نہ تھاسوائے اس خالی پلاٹ کےجو اس کے بیڈ روم کی کھڑکی کے عین سامنے تھااس پلاٹ کے چاروں طرف باؤنڈری وال کے علاوہ ایک بڑا سا گیٹ بھی تھا۔اس پلاٹ کے اندر چھوٹی چھوٹی قبریں تھیں۔اماں ہاجرہ نے بتایا تھاکہ یہ ہندؤوں کا قدیمی قبرستان ہے۔چونکہ یہ علاقہ پہلےآباد نہ تھا۔لہذا قبرستان بنا دیا گیامگر وقت اورضرورت کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سےقبرستان کے آس پاس کئی منزلہ بلڈنگیں بن گئیں مگر اس پلاٹ پر موجود وہ قبرستان آج بھی اپنی جگہ مو جود تھا۔یہ قبرستان کم از کم رومیسہ کو ضرور پریشان کر رہا تھا۔جبکہ اماں ہاجرہ اور نوید کو اس سے کوئی مسئلہ نہ تھا۔اور نہ ہی کبھی کسی اور بلڈنگ والے نے شکایت کی تھی۔اس لئے رومیسہ بھی خاموش تھی۔کیونکہ اسے لگتا کہ شایدیہ پریشانی اس کی اپنی خود ساختہ ہے۔ورنہ دوسرے لوگوں کو کوئی پرابلم نہ تھی کہ رہائشی علاقے میں یہ قبرستان ہے۔شکر ہے تم آگئی ورنہ میں تو چھت پر اکیلے اکیلے واک کر کر کے بور ہو چکی تھی ۔سیڑھیوں سے اوپرآنے والا سایہ مالہ کاتھا۔رومیسہ اسے دیکھتے ہی کھل گئی۔رومیسہ نے دیکھا کہ اس کی سفید رنگت میں قدرے پیلاہٹ کھلی ہوئی تھی۔وہ اپنے چہرے سے بیمار اور تھکی تھکی لگ رہی تھی۔رومیسہ نے پوچھا طبیعت کیسی ہے تمہاری؟بہتر ہے! مالہ کا جواب ہمیشہ اتنا ہی مختصر ہوتا تھا پھر بھی اُس کا ساتھ رومیسہ کو کافی اچھا لگتا وہ کافی کم گُو سی لڑکی جو شاید فرسٹ فلور کے کسی اپارمنٹ کی رہاشی تھی۔یہاں شفٹ ہونے کے بعد پہلے دن رومیسہ اُوپر واک کرنے آئی تو وہاں مالا پہلے ہی موجود تھی۔دُبلی پتلی سی یہ لڑکی رومیسہ کو دوستی کے لیے اچھی لگی۔مگر ان دونوں کی دوستی صرف چھت تک ہی محدود تھی۔نہ کبھی مالہ نے اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور نہ رومیسہ اسے اپنے ساتھ نیچے لے کر گئی وجہ شاید ٹائم تھا جو اُوپر واک کے دوران اتنا زیادہ ہو جاتا کہ رومیسہ کو اپنے گھر لے جانا اچھا نہ لگا۔مونگ پھلی کھاؤ گی۔واک کے دوران رومیسہ اپنے ہاتھ میں پکڑا گرم مونگ پھلی کا لفافہ اسکی جانب بڑھایا۔سوری میں مونگ پھلی نہیں کھاتی۔عجیب لڑکی ہو تم یار۔کچھ بھی نہیں کھاتی ۔نہ مونگ پھلی ،نہ ریوڑی نہ ہی کوئی ڈرائی فروٹ یہاں تک کے بھُنے ہوئے چنے بھی نہیں کھاتی۔رومیسہ جب بھی اسے کوئی چیز کھانے کو دیتی تو وہ ہمیشہ انکار کر دیا کرتی۔رومیسہ کو احساس ہوا کہ مالا شاید ہندو ہے اس لیے کسی مسلمان کے ہاتھ کا نہیں کھاتی۔اُس نے اتنے ماہ میں آج تک مالا سے کبھی اس کے مذہب کے متعلق نہ پوچھا تھا۔کیونکہ اسے اچھا نہ لگتا تھا۔حالانکہ کئی بار اس کا دل چاہا کہ وہ اس سے اس قبرستان کے بارے میں پوچھے۔جو اس کے گھر کے قریب ہی تھا۔پھر یہ سوچ کر کے کہیں اسے کوئی بات نہ لگ جائے وہ خاموش ہو جاتی۔اچانک کالے رنگ کا بڑا سا بلا ان کے سامنے آ کھڑا ہوا جو اپنی گہری نیلی آنکھوں سے انکی جانب ایسے گھور رہا تھا کہ وہ دونوں خوف زدہ ہو گئی جبکہ مالا تو ویسے بھی بلیوں سے ڈرتی تھی۔جس کا عملی مظاہرہ کئی بار رومیسہ دیکھ چکی تھی۔یہ کہاں سے آ گیا ؟وہ ٹوٹا پھوٹا جملہ ادا کرتی رومیسہ کے پیچھے اس طرح چھپ گئی ۔رومیسہ نے چپل اتار کر بلے کی جانب پھینکی وہ فوراً پیچھے کی جانب بھاگ گیا۔اس کے بھاگتے ہی مالا نے سڑھیوں کی جانب دوڑ لگا دی۔رومیسہ نے پیچھے جا کر اسے روکنے کی کوشش کی مگر وہ سیڑھیاں اترتے ہی ایسے غائب ہوئی کہ رومیسہ کو اندھیرے میں نظر نہ آئی۔مالا کے اسطرح خوف زدہ ہو کر بھاگنے میں وہ دل ہی دل میں ہنس دی اور نیچے اتر آئی۔جانے کیوں آج رومیسہ کا دل چاہا وہ مالا سے اس کی ذاتی زندگی کے متعلق کوئی سوال کرے شاید لاشعوری طور پر اس کے اندر یہ خواہش جاگ رہی تھی۔کہ وہ جانے مالا کون ہے؟چار ماہ سے انکی ملاقات تقریبا روز ہی چھت پر اسطرح ہوتی مگر وہ یہ نہ جانتی تھی کہ مالا اس بلڈنگ کے کونسے فلور پر رہتی ہے؟وہ کیا کرتی ہے؟شادی شدہ ہے یا نہیں۔یہ سوچ کر اس نے آج اپنی گفتگو کا آغاز مالا کی ذاتی زندگی کا ارادہ کرتے ہوئے ۔پہلا سوال پوچھا! تمہارے گھر میں اور کون کون ہوتا ہے؟مطلب؟ چلتے چلتے رُک کر مالا نے حیرت سے کچھ اسطرح رومیسہ کو دیکھا!کہ وہ بھی تھوڑا سا گڑبڑا گئی۔مطلب ہے کی تم اکیلی رہتی ہو؟ آئی مین تم شادی شدہ ہو یا نہیں اُس کے سارے جملے کا ایک لفظ میں جواب دے کر وہ اس طرح آگے کی طرف بڑھی کہ اُس سے مزید کچھ پوچھنے کی خواہش رومیسہ کے اندر ہی دم توڑ گئی۔ وہ بولی میں فرسٹ فلور فلیٹ نمبر 103 میں رہتی ہوں۔رومیسہ کے خاموش ہوتے ہی شاید مالا کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔اس لیے وہ پلٹ کر اُس کی جانب آتے ہوئے آہستہ سے بولی اسی ٹائم آسمان پر زور سے بجلی چمکی ساتھ ہی بادل کے گڑگڑانے کی آواز جیسے ہی مالا نے سُنی وہ بچوں کی طرح گھبرا گئی۔رومیسہ نے دیکھا خوف سے اس کی رنگت زرد پڑ گئی تھی۔وہ بولی مجھے بارش بلکل اچھی نہیں لگتی۔بہت ڈر لگتا ہے۔بارش میں بھیگنے سے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسا میرا سارا جسم جل رہا ہے۔پانی کی بوندیں مجھے آگ کی طرح محسوس ہوتی ہیں۔آپ کو پتہ ہے آگ میں جلنا کتنا حولناک ہوتا ہے۔اس کا تصور ہی میرے سارے جسم میں کپکپی طاری کر دیتا ہے۔آج پہلی بار رومیسہ نے اس کو اتنا بولتے سُنا تھا۔مگر وہ کیا کہی رہی تھی رومیسہ بالکل سمجھ نہ پائی۔اس کی زبان سے نکلنے والے بے ربط جملے کبھی کبھی تو رومیسہ کو ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ پاگل ہے۔ جیتے جی خود کو آگ میں جلتے دیکھنا خوبصورت جسم کا آگ کی شعلوں کی نظر ہوجانا کبھی دیکھا ہے آپ نے؟ اسی پل بادل ایک بار پھر سے گرجے ۔ مالا اس کا جواب سنے بغیر سیڑھیوں کی جانب بھاگی۔ جبکہ پیچھے کھڑی رومیسہ میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ آواز دیکر وہ مالا کو روک سکے۔ ایک ہفتے سے زیادہ ہوگیا تھا۔ مالا چھت پر نہ آئی تھی۔ ویسے بھی پچھلے ہفتے سے بارشیں ہورہی تھیں۔ چونکہ وہ اور بہت ساری چیزوں کے طرح بارش سے بھی ڈرتی تھی اس لئیے وہ اوپر نہ آئی تھی۔ مگر اب دو دن سے بارش بالکل ختم ہوگئی تھی۔ پھر بھی وہ اوپر نہ آئی ۔ جب شام میں نوید کے ساتھ باہر جاتے ہوئے اس نے بے اختیار رک کر فلیٹ نمبر 103 پر نظر ڈالی جہاں بڑا سا تالا اندھیرے میں بھی نظر آرہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کہیں گئی ہوئی ہے یہ سوچ کر وہ نیچے اتر گئ۔ اور پھر گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اس نے پہلی بار نوید سے مالا کا ذکر کیا۔ کیا وہ لڑکی ہندو ہے کیونکہ نام سےتو ایسا ہی لگ رہا ہے۔ پتہ نہیں ! میں نے کبھی پوچھا نہیں مگر شائد وہ فلیٹ نمبر 103 میں رہتی ہے۔ وہ کافی دنوں سے اوپر نہیں آئی۔
۔ فلیٹ نمبر 103؟ نوید نے حیرت سے دہرایا۔تمہیں شائد غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ وہاں تو کوئی بھی نہیں رہتا ۔ وہ فلیٹ ایک لمبے عرصے سے خالی ہے۔ اچھا پھر ہوسکتا ہے کہ مجھے سننے میں غلطی ہوئی ہو۔ نوید وہاں پچھلے ایک سال سے رہ رہا تھا۔اس لئیے وہ رومیسہ کے مقابلے میں بہتر جانتا تھا کہ آس پڑوس میں کون کو ن رہتا ہے۔ اور پھر گھر واپس آتے ہی وہ اماں حاجرا سے مالا کے متعلق پوچھ بیٹھی۔ پتہ نہیں بیٹا میں تو گھر سے صرف سودا لینے کی باہر جاتی ہوں۔ اور آس پڑوس میں میری کسی سے ایسی دوستی کہاں جو میں کسی کے بارے میں کچھ جان سکوں۔ ان کا جواب بالکل درست تھا۔ وہ تو سارا دن گھر میں ہی رہتی تھی۔ رومیسہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ مالا کے متعلق کس سے پوچھے۔ پھر سوچا ہوسکتا ہے کہ ایک دو دن تک وہ خود ہی اوپر آجائے۔ مگر ایسا بھی نہ ہوا۔ یہ سوچ کر وہ ایک دن اماں حاجرا کو لئیے نیچے فرسٹ فلور پر آگئی۔ جہاں آمنے سامنے کئی فلیٹ بنے ہوئے تھے۔ یہا ں ہر فلور پر دس فلیٹ تھے۔ فرسٹ فلور کے ایک سو تین فلیٹ کے علاوہ تقریباً سب میں ہی لوگ آباد تھے۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کس کا دروازہ بجا کر مالا کے متعلق سوال کرے۔ کچھ دیر وہ کھڑی سوچتی رہی۔ پھر نیچے اتر کر مین گیٹ کی جانب آگئی جہاں موجود سیکورٹی گارڈ اچھی طرح پہچانتا تھا۔ جیسے ہی رومیسہ اس کے ساتھ جا کھڑی ہوئی۔ وہ جلدی سے اٹھتا ہوا بولا ۔ السلام علیکم! باجی خیریت ہے۔ وہ بولی دراصل مجھے ایک لڑکی کے بارے میں جاننا تھا۔ لڑکی کے بارے میں؟ عبدل نے حیرت سے اسے پہلے دیکھا اور پھر اماں حاجرا کو۔ ہاں عبدل بھائی! فرسٹ فلور پر ایک دبلی پتلی سی لڑکی رہتی ہے۔ جو روزانہ چھت پر میرے ساتھ واک کرنے بھی آتی ہے۔ مگر وہ کافی دنوں سے نہیں آرہی ۔ عبدل نے پوچھا۔ کیا آپ اس کا نام جانتی ہیں؟ اس کا نام مالہ ہے۔ گوری سی ہے، بہت لمبے بال ہیں۔ بہت لمبے بالوں والی لڑکی تو میں نے یہاں کبھی نہیں دیکھی۔ ہاں فیصل صاحب کی بیٹی ہے فلیٹ نمبر 107 میں۔ نام تو مجھے اس کا نہیں پتہ لیکن بال کافی لمبے ہیں۔ ایک دفعہ ایسے ہی میری نظر پڑ گئی تھی۔ آ پ وہاں جا کر پوچھ لیں شائد وہ آپ کی مشکل حل کردیں۔ عبدل کی بات سنتے ہی وہ وہاں نہیں رکی بلکہ تیز تیز چلتی فرسٹ فلور فلیٹ نمبر 107 کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ اور بنا سوچے سمجھے بل پر ہاتھ رکھ دیا۔ کون؟ دوسری طرف دروازہ کھول کر باہر آنے والی ایک چالیس سے پنتالیس سالہ عورت تھی۔ جو رومیسہ کو اپنے سامنے دیکھ کر تھوڑا سا حیران ہوئی السلام علیکم جی! میں مسزز نوید ہوں۔ اسی بلڈنگ کے تھرڈ فلور پر میری رہائش ہے۔ مجھے دراصل مالہ سے ملنا ہے۔ تیز تیز بولتے ہوئے اس نے جلدی سے اپنی مدعا بیان کیا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اگلے ہی پل اس کی خواہش کے عین مطابق مالہ اس کے سامنے آجائے گی۔ کون مالہ؟ جواب اس کی تواقع کے خلاف تھا۔ اب رومیسہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔ ایک سولہ سترہ سالہ لڑکی اس عورت کے قریب آکھڑی ہوئی۔ رومیسہ نے دیکھا اس کے لمبے سیاہ بال کمر سے نیچے جھول رہے تھے۔ مگر ظاہر ہے وہ مالہ نہیں تھی۔ مایوسی کے ساتھ ساتھ وہ شرمندہ بھی ہوئی۔ سوری دراصل مجھے لگا شائد مالہ اسی فلیٹ میں رہتی ہے۔ نہیں اس فلیٹ میں تو نہیں یہاں تو میں اور میری اکلوتی بیٹی رہتے ہیں۔ جبکہ میرا خیال ہے کہ ہمارے فلور پر مالہ نامی کوئی لڑکی نہیں رہتی۔دراصل مجھے اس نے اپنے فلیٹ کا نمبر 103 بتایا تھا۔ تو انہوں نے بولا 103 تو پچھلے کئی سالوں سے خالی پڑا ہے۔ بہت سال پہلے یہاں ایک فیملی آباد تھی۔ پھر ان کے ساتھ ایک ایسا حادثہ ہوا کہ وہ لوگ یہ گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ دوبارہ یہاں کوئی نہیں آیا ۔ دروازے پر کھڑے کھڑے اس خاتون نے رومیسہ کو تفصیل بتانا شروع کر دی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی رومیسہ پوچھ بیٹھی کون سا حادثہ؟ وہ خاتون بولی سنا ہے ان کی جوان بیٹی کہیں اچانک غائب ہوگئی تھی۔ بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملی۔ شائد بدنامی سے بچنے کے لئے اس کے ما ں باپ یہ گھر چھوڑ کر چلے گئے لیکن ان کے جانے کے کچھ دنوں بعد فلیٹ سے اٹھنے والی بد بو نے سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ جب پولیس تالہ توڑ کر اندر داخل ہوئی تو ایک نوجوان لڑکی کی تعفن شدہ لاش پڑی تھی۔ اس کی بد بو نے پورے محلے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ بولتے بولتے وہ خاتون ایک پل کے لئے خاموش ہوگئی۔ رومیسہ نے پلٹ کر فلیٹ نمبر 103 کے دروازہ پر نظر ڈالی مگر لڑکی تو غائب ہوئی تھی پھر لاش گھر سے کیسے ملی؟ رومیسہ نے حیرت سے سوال کیا۔ یہی بات تو آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آئی ۔ کہ آخر وہ مرد، عورت کون تھے۔ کیا واقعی وہ اس لڑکی کے ماں باپ تھے؟ جو اپنی بیٹی کی لاش کو اس طرح فلیٹ میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پولیس کا خیال تھا شائد وہ لڑکی واپس آگئی تھی۔ جسے اس کے باپ نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ اور لاش کو گھر میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ افف! اس قدر سفاکی ! رومیسہ نے خوف سے جھر جھری لی۔ ہاں یہی وجہ ہے کہ یہ فلیٹ دوبارہ آباد نہیں ہوا۔ قاتل اسے ویران کر کے نکل گئے اور پھر چاہنے کے باوجود کوئی اسے آباد نہ کر سکا۔ ایک ڈر اور خوف اس فلیٹ کے حوالے سے ایسا لوگوں میں اجاگر ہوا۔ کہ شائد ابھی تک دور نہیں ہوا۔ ارے میں یہاں کھڑے کھڑے ہی سب باتیں کر رہی ہوں۔ آپ اندر تو آئیں شائد اس عورت کو احساس ہوگیا تھا۔ کہ پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ رومیسہ کے ساتھ دروازے پر ہی کھڑی تھی۔ نہیں شکریہ! اب میں جاؤنگی! میرے میاں کے گھر آنے کا وقت ہوگیا ہے۔ معذرت کرتی رومیسہ اوپر آگئی۔ اور پھر کئی دن لگ گئے رومیسہ کو وہ کہانی بھلانے میں جس کے مطابق فلیٹ سے جوان لڑکی کی بد بو والی لاش ملی تھی۔ اور شائد اس کے اس طرح مارنے میں سگے باپ کا بھی ہاتھ تھا۔ دنیا اتنی ظالم ہوتی ہے۔ یہ بات اسے چند گھنٹے پہلے ہی پتہ چلی۔ جسے وہ آنے والے کئی دنوں تک سوچ سوچ کر بے حال ہوتی رہی۔ رومیسہ فلیٹ نمبر 103 کا حادثہ چند ہی دنوں میں بالکل فراموش کر بیٹھی۔ مگر مالہ کی تلاش اس کے وجود کے اندر کہیں انتظار کر رہی تھی۔ کہ شائد کبھی زندگی میں اسے مالہ دوبارہ ملے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بلڈنگ میں آنے جانے والی ہر لڑکی کو غور سے دیکھتی۔ کبھی جو کسی ڈیپارٹمنل سٹور میں جانا ہوتا تو اس کی متلاشی نگاہیں مالہ کو کھوجتی رہتی۔سڑک سے گزرنے والی ہر لڑکی میں وہ مالہ کوتلاشتی۔ مگر مالہ ناجانے کہاں گم ہوگئی تھی۔ جو ہر بار رومیسہ کی تلاش کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا۔ اس کی تلا ش ، مالہ کے ساتھ لگن اتنی سچی تھی کہ ایک دن وہ اس میں کامیاب ہوگئی۔مگر ایسی کامیابی جس کے بعد کئی سالوں رومیسہ کا یہ دل سوچ کر کانپتا رہا کہ اس نے مالہ کی تلاش کی اتنی کوشش آخر کی کیوں! وہ جاتی سردیوں کی ایک شام تھی، اماں حاجرا کو صبح سے ہی نزلہ ذکام نے جکڑ رکھا تھا ۔ جس کے باعث وہ اپنی چار پائی پر رضائی اوڑھے پڑی تھی ۔ نوید عالم آفس کے کسی کام کے سلسلے میں کل کوئٹہ گیا ہوا تھا۔ اور اس تنہائی میں رومیسہ کا دل بے حد گھبرا رہا تھا۔ دوگھنٹے اس نے لاہو ر اپنی امی جان اور بہن سے بات کی۔ پھر جیسے ہی فون بند کیا اسے ایسا محسوس ہو ا جیسے کوئی بیرونی دروازے کے پاس سے گزر کر اوپر جانے والی سیڑھیوں کی جانب بڑھا ہے۔ اس کا اندرونی لکڑی کا دروازہ کھلا تھا جبکہ اس کے باہر موجود گرل کو وہ ہمیشہ اند رسے لاک رکھتی تھی۔ تنہائی میں ابھرنے والے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے گرل کے باہر جھانکا۔ ایک بہت لمبے بالوں والی لڑکی تیز تیز اوپر سیڑھیاں چڑھتی جارہی تھی۔ رومیسہ کا لگا وہ مالہ ہے۔ وہ جلدی سے اپنا دوپٹہ اوڑھے اس لڑکی کے پیچھے لپکی تو اوپر چھت پر جا کر غائب ہوچکی تھی۔ رومیسہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی اوپر آئی ۔ سرِ شام ہی چھت پر اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ آخری سیڑھی پر قدم رکھ کر رومیسہ نے جیسے ہی سیڑھیوں کے قریب موجود بلب آن کیا۔ اس کی روشنی پوری چھت پر پھیل گئی۔ مالہ ، مالہ ! اوپر چڑھتے اس نے آواز لگائی۔ اس کی آواز پر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ رومیسہ نے تھوڑا مزید آگے بڑھ کر دیکھا ۔ چاروں طرف ایک ھو کا عالم تھا۔ چھت بالکل خالی پڑی تھی۔ وہ ایک دم گھبرا کر واپس پلٹی ۔ تو اس کا پاؤں اس کالے بلے سے ٹکرا گیا۔ جو ہمیشہ مالہ کو خوف زدہ کر دیتا تھا۔ بلے نے بلبلا کر رومیسہ کی جانب دیکھا ۔ اس کی چمکتی موٹی کانچ جیسے آنکھوں میں جانے کیا تھا کہ رومیسہ ایک خوف زدہ ہو کر نیچے بھاگی۔ کانپتے ہاتھوں سے گرل کا لاک کھولا۔ تو سامنے ہی اماں حاجرا کھڑی تھی۔ بیٹا تم کہاں چلی گئی تھی ۔ نوید صاحب کا فون آیا تھا۔ تمھاری خیریت پوچھ رہے تھے ۔ انہیں فون کر کے جواب دے دو۔ بات کرتے کرتے اماں حاجرا کو احساس ہوا کہ رومیسہ کچھ گھبرائی ہوئی ہے۔ کیا بات ہے بیٹا؟ سب خیر تو ہے! جواباً رومیسہ نے کچھ دیر قبل والا سار ا واقعہ سنا دیا ۔ جسے سنتے ہی اماں حاجرا نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میری بات مانو تو بیٹا اس لڑکی کو بھول جاؤ۔ کیونکہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے تم نے اسے اپنے حواسوں پر پوری طرح سوا ر کر لیا ہے۔ وہ تمھارے خیالوں سے نکل کر ایک شکل میں ڈھل گئی ہے۔ جو تمھیں ہر وقت یہاں وہاں دکھائی دے رہی ہے ۔ میر اخیال ہے اماں آپ درست کہ رہی ہیں۔ رومیسہ نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا ۔ مجھے شائد وہم ہوا تھا کہ کوئی اوپر گیا ہے۔ بلاوجہ ہی اوپر بھاگی۔شائد دماغ خراب ہوگیا ہے۔ اور رات کے کھانے تک وہ شام کا واقعہ بالکل بھول چکی تھی۔ کھانہ کھا کر اس نے نوید سے فون پر بات کی ۔ پھر کافی بنا کر ٹی وی کے سامنے آ بیٹھی ۔ جب اسی پل باہر ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی۔ رومیسہ کافی کا کپ لیکر اپنے کمرے میں موجود کھڑکی کے سامنے آگئی۔ ابھی اس نے پردہ ہٹا کر باہر دیکھا ہی تھا ۔ کہ اسے محسوس ہوا سامنے قبرستان کے بیچ و بیچ کوئی کھڑا ہے۔ وہ جلدی سے کھڑکی کی آڑ میں ہوگئی شائد کوئی چور یا ڈاکو تھا۔ یا پھر کوئی غریب کچرا چننے والا بچہ۔ جو شائد بارش سے پناہ لینے کے لئے رات کے اس پل قبرستان میں داخل ہوا تھا۔ایسے ہی وقت گزاری کے طور پر رومیسہ اسے دیکھ رہی تھی ۔ جب وہ سایہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا قبرستا ن سے باہر نکل آیا رومیسہ نے دیکھا وہ ایک لڑکی تھی۔ جو دھیرے دھیرے چلتی روڈ پر لگے پیلے بلب کے نیچے آ کھڑی ہوئی۔ لمبے سیاہ بال ا سکی پشت پر پھیلے تھے۔ وہ یقیناً مالہ تھی ۔ جوکہ رومیسہ کا وہم ہر گز نہیں تھا۔ اس نے جلدی سے کھڑکی کھول کر نیچے جھانکہ تاکہ مالہ کو آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کر سکے ۔ لیکن اس کے آواز دینے سے قبل ہی مالہ نے بجلی کے کھمبےکے پاس کھڑے ہو کر اوپر دیکھا اتنی دور سے بھی رومیسہ کو لگا کہ مالہ اس دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ مالہ کی مسکراہٹ میں ناجانے ایسا کیا تھا کہ رومیسہ خوف زدہ ہو کر تھوڑا پیچھے ہوگئی۔ جبکہ اسی پل مالہ پلٹی اور سست قدمی سے چلتی قبرستا ن کے اندر داخل ہوگئی۔ ا س کے اندر داخل ہوتے ہی فضا میں پھیلا اندھیرا مزید گہرہ ہوگیا۔ رومیسہ نے آنکھ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھا وہ قبرستان بالکل خالی تھا۔ افف میرے خدا! خوف کی ایک جھر جھری نے اسے ا س طرح اپنی لپیٹ میں لیا کہ وہ کھڑے کھڑے زمین پر گر گئی۔ زمین پر گرتے وقت مالہ کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ بار ش کی بوندیں میرے جسم پر آگ کی طرح برستی ہیں۔ تم نے کبھی کسی کو جلتے ہوئے دیکھا ہے جلنے کی تکلیف اور اس کے ساتھ رومیسہ بے ہوش ہوگئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس کی امی اور نوید عالم دونوں ہسپتال میں اس کے پاس تھے۔ بقول نوید کے رومیسہ ایک ہفتے بعد ہوش میں آئی تھی۔ وہ کیوں بے ہوش ہوئی تھی وہ یہ چاہ کر بھی کسی کو نہ بتا سکی۔ مگر اس کی حالت کے پیشِ نظر بغیر اس کے کہے اپنا گھر تبدیل کر لیا ۔اور زندگی میں دوبارہ وہ کبھی اس طرف نہ گئی۔ جہاں آخری بار اس نے مالہ کو دیکھا تھا۔ مالہ کون تھی ؟ کہاں رہتی تھی ۔ یہ سب جاننے کی خواہش دم توڑ گئی تھی۔ یا شائد وہ جان گئی تھی مالہ کی اصل حقیت کیا ہے۔ ختم شد