Haj ka Safar Islamic Story in Urdu
حج کا سفر
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں بہت بڑے عالم اور وہ بہت نیک ہونے کے ساتھ وہ بہت مالدار بھی تھے۔ایک سال حضرت عبدللہ بن مبارک رحمتہ االلہ علیہ نے حج کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے خادم کو ساتھ لے کر مکہ شریف کی طرف روانہ ہو گئے ۔ آپ رح اپنے گھوڑے پر سوار چلے جا رہے تھے کہ ایک بستی کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک ایسی لڑکی کو دیکھا جو بہت ہی پریشان نظر آ رہی تھی ۔ اس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے اور بال اُلجھے ہوئے تھے ۔ جس وقت حضرت عبداللہ اس کے پاس سے گزرے وہ ایک مری ہوئی مرغی اٹھا کر اپنے دامن میں چھپا رہی تھی ۔ حضرت عبداللہ نے یہ دیکھا تو فوراً گھوڑے کی باگیں کھینچ لیں اور لڑکی سے سوال کیا ۔ بیٹی ! تم نے یہ مری ہوئی مرغی کیوں اٹھائی ہے ؟ کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ جن جانوروں کو ذبح نہ کیا جائے وہ حلال نہیں ہوتے ۔ پھر تم نے یہ مری کوئی مرغی کیوں اٹھائی؟ یہ سن کر لڑکی کی انکھوں میں انسو اگئے۔اس نے کانپتی ہوئی اواز میں کہا جناب اللہ کے فضل سے میں مسلمان ہوں اور یہ بات مجھے اچھی طرح معلوم ہے لیکن میں اس وقت ایسی مجبور ہوں کیونکہ ہماری ہوئی مرغی اٹھانے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتی۔ میرے ماں باپ مر چکے ہیں ان کے بعد ایسا کوئی نہیں جو میری اور میرے چھوٹے بھائی کی مدد کریں میں اور میرا بھائی کئی وقت کے فاقے سے ہیں وہ تو بھوک سے ادھ موا ہو گیا ہے. بس سوچا سے میں نے یہ مری ہوئی مرغی اٹھا لی شاید یہ بات اپ کو بھی معلوم ہوگی کیسی حال تو یہ مرغی ہمارے لیے حلال ہے لڑکی کی بات سن کر حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی انکھوں میں انسو اگئے اپ رحمت اللہ علیہ نے اپنے خادم سے کہا تمہارے پاس جتنی اشرفیاں ہیں ان میں سے اتنی اپنے پاس رکھ لو جو گھر تک جانے کے لیے کافی ہوں باقی ساری کی ساری اس لڑکی کو دے دو خادم نے ایسا ہی کیا پھر حضرت عبداللہ کو باریک رحمت اللہ علیہ نے لڑکی سے فرمایا۔بیٹی یہ اشرفیاں لے جاؤ اور اپنے اور اپنے بھائی کے لیے کھانے پینے کی چیزیں خرید لو امید ہے کافی دنوں تک تمہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی لڑکی اشرفیاں لے کر خوشی خوشی اپنے گھر چلی گئی اور اس کے جانے کے بعد حضرت عبداللہ نے گھوڑے کا رخ اپنے گھر کی طرف پھیر دیا خادم نے بہت ادب سے کہا حضرت اس وقت ہمارے لیے سب سے زیادہ ضروری کام حج کا فرض ادا کرنا تھا کیونکہ ہم اج کا ارادہ کر کے گھر سے روانہ ہو کے تھے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بے شک تمہاری بات ٹھیک ہے لیکن اس غریب لڑکی کی حالت سے واقف ہونے کے بعد اس کی مدد کرنا بھی ہم پر فرض ہو گیا تھا ہمیں امید ہے کہ اللہ پاک ہمیں حج کرنے کی توفیق پھر بخشے گا لیکن خدا نہ کرے یہ بچے بھوک سے مر جاتے تو پھر انہیں زندہ نہ کیا جا سکتا تھا خادم کی سمجھ میں یہ بات اگئی اور پھر دونوں گھر کی طرف روانہ ہو گئے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ایسے خوش تھے گویا حج کیے بغیر ہی اللہ پاک نے انہیں حج کا ثواب دے دیا ہو۔