Din Ka Aghaaz bura ta Ekhtataam ni Horror story in Urdu
The Urdu Story “Din Ka Aghaz Bura To Magar Ekhtatam Nahin” is a captivating tale that has garnered immense popularity among Urdu literature enthusiasts. This thought-provoking story, penned by renowned author Rahat Jabeen, explores the complexities of life, revealing that every dark beginning has a potential for a brighter ending. The Urdu Story “Din Ka Aghaz Bura To Magar Ekhtatam Nahin” is a must-read for fans of Urdu fiction.
As a standout example of Urdu storytelling, “Din Ka Aghaz Bura To Magar Ekhtatam Nahin” expertly crafts an atmosphere of hope and resilience. Jabeen’s skillful narrative weaves together the threads of human experience, reminding readers that every cloud has a silver lining. The Urdu Story “Din Ka Aghaz Bura To Magar Ekhtatam Nahin” is a testament to the power of Urdu literature to evoke emotions, spark reflection, and inspire hope.
For fans of Urdu stories, “Din Ka Aghaz Bura To Magar Ekhtatam Nahin” is an essential read. This timeless tale continues to captivate audiences with its thought-provoking narrative and masterful storytelling. The Urdu Story “Din Ka Aghaz Bura To Magar Ekhtatam Nahin” remains a landmark in Urdu literature, solidifying its place as a classic in the genre. Dive into the captivating world of “Din Ka Aghaz Bura To Magar Ekhtatam Nahin” and experience the magic of Urdu storytelling.
دن کا آغاز برا تھا مگر اختتام نہیں ۔
سفید بلی کے لیے اس دن کا آغاز ہی برا تھا ۔جب وہ صبح معمول کے مطابق محلے کے دورے پر نکلی جو راستوں منڈیروں اور چھتوں پر مٹر گشت کرنے اور کھلے دروازوں دریچوں اور روشن دانوں سے اندر جھانکنے کے بعد مکمل ہوا تھا تو پہلی گلی میں ہی اس کی ملاقات ایک لڑاکا بلی سے ہو گئی ۔ وہ سفید بلی کو دیکھتے ہی غرائی اور ناراضگی کا اظہار کیا ۔ سفید بلی نے دم ہلا کر اور گردن جھکا کر آہستہ سے میاؤں کی آواز نکالی لیکن اس نے دوستانہ روئیے کو کوئی اہمیت نہ دی ۔ وہ ہولناک اوازیں نکالتی بال کھڑے کئے اس طرف بڑھی ۔سفید بلی اس سے لڑنا نہیں چاہتی تھی لیکن مجبوراً اسے بھی جواب دینا پڑا ۔دونوں غراتی ہوئی آپس میں گتھم گتھا ہو گئیں ۔ دوسری بلی بہت لڑکا تھی ۔ سفید بلی کچھ دیر تو اس سے پنجہ آزماتی رہی پھر موقع دیکھ کر بھاگ کھڑی ہوئ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اس بلا وجہ کی لڑائی سے وہ پریشان ہو گئی تھی ۔ خیر اس نے اپنے کام کا آغاز کیا ۔ وہ دم ہلاتی اور گردن لچکاتی ان گھروں ، دکانوں اور دفتروں کے اس پاس منڈلاتی رہی جہاں اس کے قدردان اسے کچھ نہ کچھ کھانے کو دے دیا کرتے تھے لیکن شو مئی قسمت اس دن اسے اکثر دروازے دریچے اور روشن دان بند ملے جو کھلے تھے وہاں لوگ اپنے اپنے کاموں میں اس طرح مصروف تھے کہ کسی نے بھی اس کی طرف انکھ اٹھا کر نہ دیکھا وہ بے چینی سے گھومتی رہی لیکن کھانے کو کچھ نہ ملا یہاں تک کہ دوپہر ہو گئی اس کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے عرصہ ہوا اس نے کوڑا کرکٹ میں سے کھانا تلاش کرنا چھوڑ دیا تھا ۔چلتے چلتے اسے ایک جگہ بہت سی چڑیاں پانی پیتی نظر ائی جو کسی کے گاڑی دھونے سے جمع ہو گیا تھا وہ فورا شکار کے لیے چوکس ہو گئی اس کا ایک پیٹ زمین سے اٹھا ہوا تھا اور جسم ساقت تھا لیکن چلیوں نے اسے دیکھ لیا وہ اڑ کرنے کی کتار پر جا بیٹھی میری دیر تک انتظار کرتی رہی لیکن وہ نیچے نہ ائی اخر مایوس ہو کر اگے بڑھ گئی گھومتے گھومتے ہوئے پارک جا پہنچی اس نے وہاں قسمت ازمانے کا فیصلہ کیا اس وقت پارک میں کوئی نہیں تھا وہ دیوار سے لگ گئی اگے بڑھ رہی تھی اسے کچھ دور گھاس میں بہت سی چڑیاں اور مینا کیڑے مکوڑے چکتی نظر ائیں اس نے اپنی خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور زمین سے چپک کر دبے پاؤں اگے بڑھی قریب ہی پھولدار پودیاں اور جاڑیاں تھی وہ ان میں رینک گئی جھاڑیوں نے اس کے جسم کو اسانی سے چھپا لیا وہ اہستہ اہستہ اگے کیسا کر رہی تھی اس کے اور پرندوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تھا وہ شکار کے لیے تیار تھی لیکن کوئی موقع ضائع کرنا نہیں چاہتی تھی اگر اس کو وار خالی ہو جاتا تو پرندے اڑ جاتے ہیں اور وہ دوبارہ نیچے نہ اتے وہ انتظار میں تھی کہ کوئی شکار اس کے اتنے قریب ا جائے یہ ناکامی کا اندیشہ نہ رہے اس کی نظریں ان پر جمی تھیں اور مونچھیں پھڑ پھڑ رہی تھی اس وقت کسی کے قدموں کی اہٹ ہوئی اور ایک بچہ وہاں چلایا اس کے انے سے تمام پرندے اڑ کر درختوں پر جا بیٹھے بلی نے مایوسی سے گردن نہیں لائی بچہ اس کے اگے سے دھیرے دھیرے چلتا ہوا بینچ پر جا بیٹھا وہ ایک صحت مند بچہ تھا اس نے نی کر اور بلی شرٹ پہنی ہوئی تھی اور پہنوں میں کالے جوتے تھے وہ اداسی سے سوچ میں گم بینچ پر بیٹھا تھا بلی کچھ دیر تو جھاڑیوں میں چھپی رہی پھر ٹہلتی ہوئی باہر نکل ائی تب اس نے ایک نیا کھیل شروع کیا وہ گول گول گھوم کر اپنی دم پکنے کی کوشش کرنے لگی اس طرح اس کا جسم لٹو کی طرح گھوم رہا تھا بچہ کھل کھلا کر انس دیا اور خوشی سے تالیاں بجانے لگا اخر وہ دوڑتی ہوئی بینچ پر چڑھائی مگر وہاں کی نہیں ساتھ ہی ایک چھوٹے سے درخت کا دنا تھا اس پر چڑھ بیٹھی وہ چانستے ہوئے بولا مانو گی تم چر تو گئی لیکن نیچے کا صرف ہو گئی پھر وہ بیچ پر کھڑا ہو گیا اور دونوں ہاتھ اگے بڑھائے اس کے ہاتھ کا سارا ڈیئر رتی ڈرتی نیچے چلی ائی دونوں گرینچ پر بیٹھ گئے بچہ خوب ہنسا ملی تھک گئی تھی اور دھیرے دھیرے سانس لے رہی تھی بچہ شوخی سے بولا میری پیاری دوست تم بہت اچھی ہو تم نے مجھے خوش کر دیا میں اداس تھا لیکن تمہارا کھیل دیکھ کر دل مصر سے بھر گیا ہے ایسی خوشی تو مجھے نہیں سائیکل ملنے پر بھی نہیں ہوئی تھی تمہارا کھیل خاص میرے لیے تھا کیونکہ یہاں اور کوئی نہیں ہے اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی پھر وہ گہرا سانس لے کر بولا اب میری سمجھ میں اگیا ہے کہ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا جس طرح اندھیرے میں بعد اجالا اتا ہے اسی طرح ہر مشکل کوشش سے راحت میں گزر جاتی ہے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے جلد میرے ابو کو ملازمت مل جائے گی میں پھر سکول جانے لگوں گا اس کا ہاتھ بلی کی مخملی جلد کو نرمی سے سہلا رہا تھا ملی کی نظر نیچے لگی تھی جہاں ایک چڑیا بے خیالی میں بہت قریب چلی ائی تھی تم یہیں ٹھہروں میں پانچ منٹ میں ایا کرو تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھ گیا جلد ہی وہ واپس اگیا اس کے ہاتھ میں ایک اگزی گلاس تھا جس میں دودھ بھرا تھا لو میری پیاری دوست یہ دودھ پی لو شاید میں بھوک لگی ہو سفید بلی نے تشکر بھری نظروں سے اسے دیکھا اور ہپڑ ہپڑ دودھ پینے لگی۔