Bhoot ni nikla Store se wo nikla in Urdu Story
The Urdu story “Bhoot Ni Nikla Store Se Wo Nikla” is a masterpiece of contemporary literature, penned by the renowned author Syed Muhammad Ashraf. This captivating tale is a testament to the power of the Urdu story, delving into the realm of the supernatural and exploring the darker side of human experience. Through “Bhoot Ni Nikla Store Se Wo Nikla”, Ashraf skillfully weaves a chilling narrative that showcases the best of Urdu storytelling.
At its core, the Urdu story “Bhoot Ni Nikla Store Se Wo Nikla” is a gripping exploration of fear, superstition, and the unknown, cementing its place as a landmark in Urdu literature. Ashraf’s masterful storytelling brings to life the world of his protagonist, a young man navigating the treacherous landscape of a haunted store, making this Urdu story a beloved classic among readers. As a result, “Bhoot Ni Nikla Store Se Wo Nikla” continues to captivate audiences, inspiring new generations of readers and writers alike.
The Urdu story “Bhoot Ni Nikla Store Se Wo Nikla” remains a cherished favorite among literary enthusiasts, thanks to its masterful storytelling and chilling narrative. Ashraf’s writing has ensured that this Urdu story continues to resonate deeply with readers, showcasing the beauty and power of the Urdu story to evoke emotions and spark imagination. If you haven’t already, immerse yourself in the haunting world of “Bhoot Ni Nikla Store Se Wo Nikla” and discover why this Urdu story remains a timeless classic in the world of Urdu literature.
بھوت نہیں نکلا ۔۔۔۔۔۔۔ سٹور سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نکلا
ویک اینڈ آیا تو ہم نے وقت ضائع کئے بغیر کھیل کود اور سیرو تفریح کی فہرست تیارکی اور چھٹی کو بھرپور طریقے سے گزارنے کا ارادہ کر لیا ۔ اسلام علیکم! کیاحال ہے آج آ رہے ہو نا تم لوگ ؟میں نے اپنے کزنز کو فون ملا دیا ۔ہاں ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ آئیں گے ،بھلا ایسا ہو سکتا ہے کہ چھٹی ہو اور ہم لوگ اکٹھے نا ہوں ۔ اُنھوں نے جواب دیا ۔چلو پھر ٹھیک ہے گھر پر بیف تکہ تمہارا انتظار کر رہا ہو گا شام کو جلدی آ جانا ۔ میں نے کہا اور خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا ۔شام کو میرے سامنے اشعر احمد شان اور عماد کھڑے تھے ۔میں نے انہیں سلام کیا اور خوش آمدید کہا ۔ کھیلنے کودنے کے دوران بیف تکے کھائے اس کے بعد ہم نیچے آ کر ایک کمرے میں جمع ہو گئے ۔ اب یہ بتاؤ کہ کل کیا کرنا ہے ؟ اشعر نے سب کو مخاطب کیا جس پر سب سوچ میں پڑ گئے ۔عماد تم ہی کچھ آئیڈیا دو ۔ احمد نے عماد سے کہا ۔ میرا خیال ہے جب ہائیڈروجن اور آکسیجن ملتے ہیں تو پانی بنتا ہے ۔ کتابی کیڑا عماد نہ جانے کن خیالوں میں گم اپنی ایک الگ ہی سائنسی دنیا بسانے بیٹھا ہوا تھا ۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں عماد ۔۔۔۔۔۔ کیسی باتیں کر رہے ہیں ۔ ہم سوال کچھ پوچھ رہے ہیں اور تم جواب کچھ دے رہے ہو ۔ شان نے اماد کو کندھے سے پکڑ کر ہلایا اپنی گہری سوٹ میں ڈوبا ہوا تھا جب شان نے اسے خیالوں سے بیدار کرنے کے لیے کوشش کی تو ایک دم ہارڈ بڑا ا گیا میں وہ سوچ رہا تھا کہ حماد نے کہنا چاہا وہ چمچ سوچو لگتا ہے ساری دنیا کی فکر تمہیں ہی لگی ہوئی ہے حشر نے بات کاٹی کیوں پوچھ رہے تھے تم لوگ ہم اپ نے اپنے خیالوں کو جھٹک کر کہا ہم یہ سوچ رہے تھے کہ کل اخر کیا کریں فٹوال کھیلیں اشعر نے تجویز دی نہیں نہیں فٹبال سے تو میرا دل بھر گیا ہے کچھ اور کرتے ہیں احمد نے کہا تو پھر سائکل چلاتے ہیں ہم سب کی سائیکلیں یہاں سٹور میں پڑی ہوئی ہیں کافی عرصہ ہو گیا ہم نے سائیکل نہیں چلائی نہ میں نے ائیڈیا دیا جوسب کو پسند ایا تو ٹھیک ہے کل ہم سائیکل چلائیں گے ایک ساتھ شان نے کہا اگلی شام پانچ بجے ہم اکٹھے ہوئے ہم عماد کہاں ہیں اشعر نے عماد کو نہ پاتے ہوئے پوچھا۔ وہ صاحب تو سائنس کی کتاب لے کر کمرے میں بیٹھ کر معلومات کا خزانہ جمع کر رہے ہیں ۔ احمد نے کہا ۔ چلو ٹھیک ہے اگر اسے کتابیں پڑھنا پسند ہے تو ہم اسے زیادہ مجبور نہیں کریں گے ۔ ہم سب چلتے ہیں سٹور سے سائیکل لینے ۔ شان نے کہا ہم سب اپنی اپنی سائیکل لینے گھر کے پیچھے والے باغیچے میں بنے سٹور کی طرف چل دئیے ۔ وہ ایک بڑا سا کمرہ تھا جس میں پرانی چیزوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ۔ ابھی ہم سٹور میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ایک پر اسرار آواز ہمارے کانوں میں آئی ۔کچھ سنا تم نے ؟ ہم ایک دوسرے سے پوچھنے لگے ۔ ہاں ایک آواز آئی ہے عجیب سی آواز ہے کسی انسان کی نہیں لگتی احمد نے کہا شاید یہاں پر کوئی چوہا ہوگا اشعر نے کہا شام ہو رہی تھی اسی لیے روشنی بہت کم تھی اور اسمان پر اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا فضا بہت خوفناک ہو گئی تھی اوپر سے سٹور کی لائٹ بھی خراب تھی اس لیے ہم لوگ ٹارچ لے کر وہاں ڈر اور خوف کی کیفیت میں کھڑے تھے یہ کسی چوہے کی نہیں بھوت کی اواز ہے شان نے سب کو خبردار کر دیا تم ۔۔۔۔۔تم ٹھیک کہہ رہے ہو یہ آواز بھوت کی ہے ۔ احمد تھر تھر کانپنے لگا ۔ ہو سکتا ہے کہ یہاں کوئی چوہا وغیرہ ہی ہو رکو میں دیکھتا ہوں ۔ میں نے ہمت کی اور ٹارچ لے کر اگے بڑھنے ہی والا تھا کہ وہ پر اسرار اواز دوبارہ ائی جس نے ہمیں یقین دلا دیا کہ یہاں کوئی چوہا نہیں بھوت ہی ہے ہم نے وہاں سے بھاگنے میں ہی اپنے عافیت جانی اور سیدھا عماد کے کمرے میں گئے جہاں وہ ہاتھ میں کتاب لے کر بیٹھا ہوا تھا ہمیں گھبرایا ہوا دیکھ کر وہ بھی پریشان ہو گیا کیا ہوا خیریت تو ہے عماد نے فکر مندی سے پوچھا وہ وہ ہم نے سٹور میں بھوت کی اواز سنی ہے وہاں بہت ہی پہلے ہمیں لگا کہ یہ ہمارا وہم ہے مگر جب دوبارہ بھوت نے اواز دی تو ہم سمجھ گئے کہ یہاں کسی بھوت کا بسیرا ہے اشعر نے تفصیل بتائی بھوت کا نام سن کر عمار بھی خوفزدہ ہو گیا کیا مجھے تو بھوت سے بہت ڈر لگتا ہے عماد نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے ہم نے صرف اوازیں سنی ہیں بھوت کو دیکھا نہیں ہے ہو سکتا ہے وہ بھوت نہ ہو میں نے سب کو تسلی دینے کی کوشش کی جبکہ ہم سب جانتے تھے کہ وہاں ایک بھوت موجود ہے جو ہمارے پیچھے پڑ گیا ہے وہاں پر بھوت ہی ہے اگر اب بھی کوئی وہم باقی ہے تو ہم کل شام کو بھی سسٹور میں جائیں گے اور عمادتم بھی چلنا ہمارے ساتھ تاکہ تم بھی بھوت کی اواز سنو شان نے سب کی ہمت بندھائی تاکہ سب ایک بار پھر یقین دہانی کر لیں سٹور والا بھوت وہاں موجود ہے اور ہمیں اوازیں دے کر احساس دلا رہا ہے کہ ہم وہاں نہ جائیں کیونکہ وہاں اس کا بسیرا ہے بھوت کا نام سن کر ہی عماد کی حالت خراب ہو گئی اور وہ ڈر سے کانپنے لگا میں نہیں جاؤں گا بھوت مجھے پکڑ لے گا حماد نے بمشکل اپنا جملہ مکمل کیا حماد کی حالت دے کر ہم نے اسے یہیں کمرے میں رکھنے کا فیصلہ کیا اج کی رات اور کل کا دن بہت جلدی گزر گیا اور شام ہو گئی ایک دوسرے کی ہمت بنا کر ہم سٹور کی طرف اہستہ اہستہ قدم بڑھانے لگے ساتھ ہی ساتھ ہمارے ذہن میں بہت سے متعلق خوفناک باتیں بھی ا رہی تھی ٹاس لے کر ہم سٹور میں داخل ہوئے کوئی ہے کوئی ہے ہم نے سوال کیا جواب میں کوئی اواز نہیں پورا کا پورا بوت ہمارے سامنے ہے کھڑا ہو گیا اس نے کالے رنگے کہنے ہوئے تھے ایک لمبی سی چادر اس نے اپنے اوپر ڈالی ہوئی تھی پھر وہی اچانک اوازیں انے لگی جو دل شام کو ا رہی تھی ہم سب کرم خوف بھی لوٹ چکا تھا وہ پورا سرار اوازیں ہمارے کانوں پر رہی تھی ہم نے بہت کے چہرے پر ٹچ کی روشنی ڈالنے کی ہمت نہیں کی سٹور میں اندھیرا اتنا تھا کہ فلاور سے کام نہیں چل رہا تھا البتہ یہ ضرور پتہ چل رہا تاکہ وہ بھوت ہمارے پاس ا رہا ہے ہم جان بچا کر سٹور سے باہر بھاگ گئے ہماری حالت بغیر ہو رہی تھی کہ اچانک ہم نے کسی نے پیچھے سے اواز دی ہم نے خوف زدہ نظر سے دیکھا تو ہمارا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا پیچھے عماد گھڑا مسکرا رہا تھا بہت کے کپڑے پہن کر وہ ہمارے پاس ایا حماد ہم سب چلائے تم تم بھوت ہوئے تھے ہم نے پوچھا ہاں میں نے سوچا کہ ذرا اپنا اپنی اداکاری تو سب کو دکھاؤں میں نے ڈرنے اور خوفزدہ ہونے پر رحم کیا تاکہ سب کو بت بن کر را سکوں ہا ہاہا ہا ہاہا حماد نے کیا کہا لگایا اور ہم تو تمہیں کتابی کی راہ سمجھ رہے تھے تم تو چپے رستم نکلے ساری پلاننگ اکیلے اکیلے کر لی کہا ہم نے کہا خیر ہم پھر اندر کمرے میں اگئے ہم خوش اس لیے تھے کہ ہم اس بھوت کے بارے میں سوچ سوچ کر کہاں پڑھ رہے تھے وہ اب ہمیں کبھی پریشان کرنے والا نہیں تھا جب شان نے اسے خیالوں سے بیدار کرنے کے لیے کوشش کی تو ایک دم ہارڈ بڑا ا گیا میں وہ سوچ رہا تھا کہ حماد نے کہنا چاہا وہ چمچ سوچو لگتا ہے ساری دنیا کی فکر تمہیں ہی لگی ہوئی ہے حشر نے بات کاٹی کیوں پوچھ رہے تھے تم لوگ ہم اپ نے اپنے خیالوں کو جھٹک کر کہا ہم یہ سوچ رہے تھے کہ کل اخر کیا کریں فٹوال کھیلیں اشعر نے تجویز دی نہیں نہیں فٹبال سے تو میرا دل بھر گیا ہے کچھ اور کرتے ہیں احمد نے کہا تو پھر سائکٹ چلاتے ہیں اور سر کی سائیکل یہاں سٹور میں پڑی ہوئی ہیں کافی عرصہ ہو گیا ہم نے سائیکل نہیں چلائی نہ میں نے ائیڈیا دیا جسم کو پسند ایا تو ٹھیک ہے کل ہم سائیکل چلائیں گے ایک ساتھ شان نے کہا اگلی شام پانچ بجے ہم اکٹھے ہوئے ہم عماد کہاں ہیں اشعر نے عماد کو نہ پاتے ہوئے پوچھا۔ وہ صاحب تو سائنس کی کتاب لے کر کمرے میں بیٹھ کر معلومات کا خزانہ جمع کر رہے ہیں ۔ احمد نے کہا ۔ چلو ٹھیک ہے اگر اسے کتابیں پڑھنا پسند ہے تو ہم اسے زیادہ مجبور نہیں کریں گے ۔ ہم سب چلتے ہیں سٹور سے سائیکل لینے ۔ شان نے کہا ہم سب اپنی اپنی سائیکل لینے گھر کے پیچھے والے باغیچے میں بنے سٹور کی طرف چل دئیے ۔ وہ ایک بڑا سا کمرہ تھا جس میں پرانی چیزوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ۔ ابھی ہم سٹور میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ایک پر اسرار آواز ہمارے کانوں میں آئی ۔کچھ سنا تم نے ؟ ہم ایک دوسرے سے پوچھنے لگے ۔ ہاں ایک آواز آئی ہے عجیب سی آواز ہے کسی انسان کی نہیں لگتی احمد نے کہا شاید یہاں پر کوئی چوہا ہوگا اشعر نے کہا شام ہو رہی تھی اسی لیے روشنی بہت کم تھی اور اسمان پر اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا فضا بہت خوفناک ہو گئی تھی اوپر سے سٹور کی لائٹ بھی خراب تھی اس لیے ہم لوگ ٹارچ لے کر وہاں ڈر اور خوف کی کیفیت میں کھڑے تھے یہ کسی چوہے کی نہیں بھوت کی اواز ہے شان نے سب کو خبردار کر دیا تم ۔۔۔۔۔تم ٹھیک کہہ رہے ہو یہ آواز بھوت کی ہے ۔ احمد تھر تھر کانپنے لگا ۔ ہو سکتا ہے کہ یہاں کوئی چوہا وغیرہ ہی ہو رکو میں دیکھتا ہوں ۔ میں نے ہمت کی اور ٹارچ لے کر اگے بڑھنے ہی والا تھا کہ وہ اسرار اواز دوبارہ ائی جسے ہوئے یقین د** دیا کہ یہاں کوئی چوہا نہیں بھوت ہی ہے ہم نے وہاں سے بھاگنے میں ہی اپنے عافیت جانی اور سیدھا عماد کے کمرے میں گئے جہاں وہ ہاتھ میں کتاب لے کر بیٹھا ہوا تھا ہمیں گھبرایا ہوا دیکھ کر وہ بھی پریشان ہو گیا کیا ہوا خیریت تو ہے عماد نے فکر مندی سے پوچھا وہ وہ ہم نے سٹور میں بہت کی اواز سنی ہے وہاں بہت ہے پہلے ہمیں لگا کہ یہ ہمارا ذہن ہے مگر جب دوبارہ بھوت نے اواز دی تو ہم سمجھ گئے کہ یہاں کسی بھوت کا بسیرا ہے اشعر نے تفصیل بتائی بھوت کا نام سن کر عمار بھی خوفزدہ ہو گیا کیا مجھے تو بہت سے بہت ڈر لگتا ہے حماد نے سے ہمیں ہوئے لہجے میں کہا مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے ہم نے صرف اوازیں سنی ہیں بہت کو دیکھا نہیں ہے ہو سکتا ہے وہ بہت نہ ہو میں نے سب کو تسلی دینے کی کوشش کی جبکہ ہم سب جانتے تھے کہ وہاں ایک بھوت موجود ہے جو ہمارے پیچھے پڑ گیا ہے وہاں پر بہت ہی ہے اگر اب بھی کوئی اہم باقی ہے تو ہم پر شام کو بھی سسٹور میں جائیں گے اور اموات تم بھی چلنا ہمارے ساتھ تاکہ تم بھی بھوت کی اواز سنو شان نے سب کی ہمت بندھائی تاکہ سب ایک بار پھر یقین دہانی کر لیں سٹور والا بھوت وہاں موجود ہے اور ہمیں اوازیں دے کر احساس د** رہا ہے کہ ہم وہاں نہ جائیں کیونکہ وہاں اس کا بسیرا ہے بھوت کا نام سن کر ہی عماد کی حالت خراب ہو گئی اور وہ ڈر سے کانپنے لگا میں نہیں جاؤں گا بھوت مجھے پکڑ لے گا حماد نے کوئی مشکل اپنا جملہ مکمل کیا حماد کی حالت دے کر ہم نے اسے یہیں کمرے میں رکھنے کا فیصلہ کیا اج کی رات اور کل کا دن بہت جلدی گزر گیا اور شام ہو گئی ایک دوسرے کی ہمت بنا کر ہم سٹور کی طرف اہستہ اہستہ قدم بڑھانے لگے ساتھ ہی ساتھ ہمارے ذہن میں بہت سے متعلق خوفناک باتیں بھی ا رہی تھی ٹاس لے کر ہم سٹور میں داخل ہوئے کوئی ہے کوئی ہے ہم نے سوال کیا جواب میں کوئی اواز نہیں پورا کا پورا بوت ہمارے سامنے ہے کھڑا ہو گیا اس نے کالے رنگے کہنے ہوئے تھے ایک لمبی سی چادر اس نے اپنے اوپر ڈالی ہوئی تھی پھر وہی اچانک اوازیں انے لگی جو دل شام کو ا رہی تھی ہم سب کرم خوف بھی لوٹ چکا تھا وہ پورا سرار اوازیں ہمارے کانوں پر رہی تھی ہم نے بہت کے چہرے پر ٹچ کی روشنی ڈالنے کی ہمت نہیں کی سٹور میں اندھیرا اتنا تھا کہ فلاور سے کام نہیں چل رہا تھا البتہ یہ ضرور پتہ چل رہا تاکہ وہ بھوت ہمارے پاس ا رہا ہے ہم جان بچا کر سٹور سے باہر بھاگ گئے ہماری حالت بغیر ہو رہی تھی کہ اچانک ہم نے کسی نے پیچھے سے اواز دی ہم نے خوف زدہ نظر سے دیکھا تو ہمارا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا پیچھے عماد گھڑا مسکرا رہا تھا بہت کے کپڑے پہن کر وہ ہمارے پاس ایا حماد ہم سب چلائے تم تم بھوت ہوئے تھے ہم نے پوچھا ہاں میں نے سوچا کہ ذرا اپنا اپنی اداکاری تو سب کو دکھاؤں میں نے ڈرنے اور خوفزدہ ہونے پر رحم کیا تاکہ سب کو بت بن کر را سکوں ہا ہاہا ہا ہاہا حماد نے کیا کہا لگایا اور ہم تو تمہیں کتابی کی راہ سمجھ رہے تھے تم تو چپے رستم نکلے ساری پلاننگ اکیلے اکیلے کر لی کہاہم نےہا خیر ہم پھر اندر کمرے میں اگئے ہم خوش اس لیے تھے کہ ہم اس بھوت کے بارے میں سوچ سوچ کر کہاں پڑھ رہے تھے وہ اب ہمیں کبھی پریشان کرنے والا نہیں تھا