---Advertisement---

Barson Baad Horror Story in Urdu

Published On:
---Advertisement---

Barson Baad Horror Story in Urdu

 

Barson Baad: Ek Horror Story

 

Ek baar ek chhote se gaon mein ek ladka tha, jis ka naam Ahmad tha. Ahmad ek ajeeb sa ladka tha, woh hamesha apne gaon ki purani dastanen sunta tha. Ek din, Ahmad ko ek purani dastan sunne ko mili, jis mein ek ajeeb sa mahal ke baare mein bataya gaya tha. Yeh dastan sun kar Ahmad ko bohot dar laga, lekin woh yeh jaanna chahta tha ki yeh dastan sach mein hai ki nahin.

 

Ahmad ne yeh dastan sun kar socha, “Kya yeh mahal sach mein hai?” Woh is mahal ki talash mein nikal pada. Woh gaon se bahar nikal kar ek sunsaan raah par chal pada. Raah mein woh ek ajeeb sa mahal dekha, jis mein koi bhi nahin tha. Ahmad ko yeh dekh kar bohot dar laga, lekin woh yeh jaanna chahta tha ki yeh mahal ki sachchai kya hai.

 

Ahmad us mahal mein dakhil hua aur dekha ki woh yahan akela nahin hai. Woh yahan par ek ajeeb sa cheez dekha, jis mein ek ladki ki rooh thi. Ahmad ko yeh dekh kar bohot dar laga aur woh yahan se bhag gaya. Woh apne gaon mein wapas aa kar sab logon ko yeh baat batayi. Sab logon ne Ahmad ki baat sun kar us mahal ko chor diya. Barson baad, Ahmad ne yeh baat yaad ki aur socha ki yeh dastan sach mein hai.

 

Translation:

 

Years Later: A Horror Story

 

Once upon a time, in a small village, there was a boy named Ahmad. Ahmad was a strange boy who always listened to old stories about his village. One day, Ahmad heard an old story about a strange mansion that made him very scared, but he wanted to know if it was true.

 

Ahmad thought after hearing this story, “Is this mansion real?” He went out to search for this mansion. He left the village and walked on a deserted road. On the way, he saw a strange mansion where no one was present. Ahmad was very scared after seeing this, but he wanted to know the truth about this mansion.

 

  1. Ahmad entered the mansion and saw that he was not alone. He saw a strange thing here, in which there was a girl’s spirit. Ahmad was very scared after seeing this and ran away from there. He came back to his village and told everyone about this. Everyone listened to Ahmad’s story and avoided that mansion. Years later, Ahmad remembered this story and thought that it was true

برسوں بعد۔۔۔۔

مصنفہ : سارہ یوسف اعوان

یہ تب کی بات ہے جب میں 9 سال کی تھی۔ ہمارے قصبے سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پے میرے چچا کا کئی ایکٹر رقبے پے پھیلا ایک پرانا فارم ہاؤس تھا جسے میرے دادا نے اپنی جوانی میں انتہائی سستے داموں خریدا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے فارم کا اصل مالک بس اس سے جان چھڑانا چاہتا تھا اور اس نے نہایت کم قیمت پر ہی فارم کو بیچ دیا۔ اب اس فارم کو چچا جان نے دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ بڑے حصے میں سورج مکھی اور کارن کی فصل اور سبزیاں کاشت کی جاتی تھیں جبکہ فارم کے وسط میں ایک لکڑی کی باڑ سے پارٹیشن کرکے مویشی پالنے کا احاطہ بنا دیا گیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر چچا نے فارم کے لیے کوئی ملازم نہیں رکھا تھا۔ بلکہ خود اور اپنے بیس سالہ بیٹے ارحم کے ساتھ فارم پر مصروف رہتے تھے اور خود ہی سارا کام سنبھال رکھا تھا۔ آبادی سے دور پرسکون اور خاموش جگہ تھی۔ ہم یعنی پوری فیملی ہر دوسرے ویک اینڈ پے چچا جان کے ہاں جاتے ۔ ان کا گھر فارم ہاؤس کے دروازے کے عین باہر دائیں جانب کو تھا۔ہم سب کچھ گھنٹے چچا جان کے ہاں گزارتے اور ایک وقت کا کھانا وہیں کھا کے واپس آجاتے ۔

لیکن۔ اتنے طویل عرصے میں ہم کبھی فارم ہاؤس میں نہیں داخل ہوئے۔ ایسا لگتا تھا جیسے میری فیملی میں کسی کو فارم ہاؤس وزٹ کرنے میں سرے سے دلچسپی ہی نہ ہو۔

میں نے چند مرتبہ چچا سے فارم ہاؤس کی سیر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ تاہم انہوں نے ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر مجھے صاف منع کردیا۔ اور مجھے ہر مرتبہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا۔ لیکن اس سہ پہر جب ہم چچا کے گھر تھے اور موسم بھی بہت اچھا تھا تو مجھے فارم میں داخل ہونے کا موقع مل ہی گیا۔ تاہم یہ میری زندگی کی ایک بھیانک غلطی ثابت ہونے والی تھی۔ حسب معمول سب کھانا کھانے کے بعد چائے پیتے ہوئے خوش گپیوں میں مشغول تھے ۔وہاں چونکہ میرا ہم عمر کوئی نہیں تھا اس لیے اکثر و بیشتر میں بور ہی ہوتی رہتی تھی ۔ اس دن بھی بوریت کی وجہ سے میں چپکے سے اٹھ کے باہر صحن میں آگئی۔گھر کے چوبی دروازے کا ایک پٹ کھلا جس سے چند فٹ کے فاصلے پر فارم ہاؤس کا مرکزی پھاٹک صاف نظر آرہا تھا۔ اور۔ اس دن اس پھاٹک پر باہر سے وہ بھاری تالہ نظر نہیں آرہا تھا جو اکثر و بیشتر وہاں لگا رہتا تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ نہ پا کے خاموشی سے گھر سے باہر قدم رکھ دیا۔ باہر جاتے ہی میں تجسس اور ایکسائٹمنٹ کے ساتھ فارم ہاؤس کے پھاٹک کی طرف بڑھی۔ اور پھاٹک پر پہنچ کے دروازے کو دھکیلا۔ لیکن وہ بھاری دروازے اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے پورا زور لگا کر اسے اندر کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی۔ اور بمشکل تمام دروازہ اتنا سا کھل پایا کے میں سکڑ سمٹ کر اندر داخل ہوسکوں۔ چند لمحوں میں میں فارم کے اندر تھی۔ واااااو ۔ فارم پر سورج مکھی کی لہلہاتی فصل اور زرد پھولوں کا سمندر دیکھ کے بےاختیار میرے منہ سے ستائشی فقرے جاری ہوگئے۔ “بھلا اتنی خوبصورت جگہ کو کوئی کیوں چھپا کے رکھنا چاہے گا؟ میں نے سورج مکھی کی فصل کے بیچوں بیچ بنی پگڈنڈی پر آگے بڑھتے ہوئے سوچا۔ فارم پر ایک گہری خاموشی طاری تھی جس میں محض وقتاً فوقتاً پرندوں کی چہچہاہٹ ہی سنائی دیتی تھی۔ سورج مکھی کا کھیت ختم ہوتے ہی سبزیوں کی کیاریاں شروع ہوگئیں جو تین فرلانگ تک پھیلی ہوئی تھیں اور ان کے پار لکڑی کے تختوں سے بنا ایک احاطہ نظر آرہا تھا جس میں لکڑی کے ہی بنے دو چھوٹے اور ایک بڑا “ہٹ” دور سے ہی پرانے اور بوسیدہ لگ رہے تھے۔ سبزیوں کی کیاریوں کے اندر سے گھومتی پھرتی میں احاطے کے چوبی دروازے پر پہنچ گئی۔ اس پر کوئی کنڈی یا لاک نہیں تھا۔ اور دھکیلنے پر آسانی سے کھل گیا۔ احاطے میں قدم رکھتے ہی مجھے ایک عجیب سی بے چینی کا احساس ہوا۔ ایسے لگا جیسے مجھے کوئی دیکھ رہا ہو۔ میں نے آس پاس چاروں طرف نظریں دوڑائیں مگر احاطہ بالکل خالی تھا ۔ وہاں انسان تو کیا کوئی مویشی بھی اس وقت موجود نہ تھا ۔

“یقینا سب جانوروں کو اس وقت احاطے کی پشت پے چرنے کے لیے چھوڑا گیا ہوگا”. میں نے سوچا۔ سامنے موجود سب سے بڑے ہٹ کا دروازہ کھلا تھا ۔ اس کمرے میں جانوروں کے لیے سردیوں میں کھلانے کے لیے بھوسہ اکھٹا کیا گیا تھا۔ اور بھوسے کو ایک بہت بڑے ڈھیر کی صورت میں کمرے کے وسط میں رکھ کر اسے ترپالوں سے مکمل ڈھک دیا گیا تھا۔ یہ ڈھیر کافی بلند تھا اور چھت سے تھوڑا ہی نیچا تھا۔ اسی وقت مجھے نجانے کیا سوجھی کہ میں نے اس ڈھیر پر چڑھنے کا فیصلہ کیا۔ میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ میں اس کی چوٹی سے چھت کو چھو سکتی ہوں یا نہیں۔ اور یوں میں نے ایک طرف سے بھوسے کے ڈھیر پے چڑھنا شروع کردیا۔ چوٹی پے چڑھ کے میں نے چھت کو چھوا ہی تھا کہ دائیں جانب سے ابھرنے والی کچھ تیز کریہہ آوازوں سے کمرے پر چھائی خاموشی ٹوٹ گئی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی جانور اپنے ناخنوں سے لکڑی کو کرید رہا ہو۔ میں نے تیزی سے چہرہ گھما کے اس جانب دیکھا تو ایک بھیانک منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہ جو کچھ بھی تھا دیوار کے ایک کونے میں سکڑا سمٹا دیوار کی جانب منہ کیے اپنے دونوں ہاتھوں سے دیوار کو کرید رہا تھا اور اسی وجہ سے وہ مکروہ آوازیں پیدا ہو رہی تھیں۔ وہ مخلوق زردی مائل خاکی رنگ کی تھی جس کا جسم انسان کی طرح تھا مگر جیسے اس کے وجوں میں گوشت کا ایک ریشہ بھی نہ تھا بلکہ پیلی سی مردہ کھال جیسے ڈھانچے پر ہی لپیٹ دی گئی تھی۔ میں اس جی ریڑھ کی ہڈی کا ایک ایک مہرہ دیکھ سکتی تھی۔ یہ منظر اتنا مکروہ تھا کہ مجھے بےاختیار اُبکائی آگئی ۔ اس نے اپنا چہرہ میری طرف موڑا اور خوف سے میرا دل ایسے دھڑکنے لگا جیسے پسلیاں توڑتے ہوئے سینہ پھاڑ کے باہر آجائے گا۔ اس چیز کی شکل ایسی تھی جیسے کسی انسانی لاش کے چہرے کو ہتھوڑے سے پیٹا گیا ہو۔ میں نے اپنے وجود کے ایک ایک خلیے کی طاقت اپنی ٹانگوں میں مجتمع کی اور جتنا تیزی سے ممکن تھا ڈھیر کے دوسری طرف اترتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بھاگی۔ مجھے پشت پر کسی کے ہانپنے جیسی آوازیں ائیں۔ جو کے قریب ہوتی جارہی تھیں۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ جو کچھ بھی تھا میرا پیچھا کررہا تھا۔.میں نے پوری طاقت صَرف کرتے ہوئے اپنے بھاگنے کی رفتار کو مزید بڑھا دیا اور چند لمحوں میں ہی سبزیوں کی کیاریوں کو پار کرکے سورج مکھی کے کھیت میں داخل ہو چکی تھی۔ مجھے اب بھی اپنی پشت پر ہانپنے اور غرانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ میرا رخ فارم ہاؤس کے مرکزی گیٹ کی طرف تھا۔

بس پہنچ گئی ۔ پہنچ گئی ۔ پہنچ گئی۔ میں نے بھاگتے ہوئے سوچا۔ لیکن جیسے ہی میں سورج مکھی کے کھیت سے نکلی میرا پیر بری طرح سے رپٹا اور میں منہ کے بل زمین پر گری۔ اور بمشکل تین سیکنڈ میں وہ مخلوق میرے سر پر تھی۔ میں نے خوف سے آنکھیں بھینچ لیں۔اب غرانے کی آواز کے ساتھ اس مخلوق کی یخ ٹھنڈی سانس مجھے گردن کی پشت پر محسوس ہورہی تھی۔ مرکزی گیٹ بند تھا۔۔۔۔۔ مجھے اپنی موت کا یقین ہوچکا تھا۔ تبھی مجھے کسی کتے کے بری طرح سے بھونکنے اور غرانے کی آواز آئی اور ایسا لگا جیسے کسی چیز نے میرے اوپر سے دوسری جانب چھلانگ لگائی ہو۔.یہ چچا جان کا کتا سکیٹو تھا جو نجانے کس وقت فارم میں آیا تھا اس نے ہی مجھے نامعلوم مخلوق کے شکنجے میں دیکھ کر اس پر چھلانگ لگائی تھی اور اسے رگیدتا ہوا سورج مکھی کے کھیت کے اندر جاگرا تھا۔ کتے کے بری طرح سے غرانے کی آوازوں کے ساتھ فصل ایسے ہل رہی تھی جیسے دو درندے آپس میں ٹکرا گئے ہوں۔

میں ہمت کرکے اٹھی اور بےتحاشہ مرکزی گیٹ کی طرف بھاگی۔ میں گیٹ پر پہنچی ہی تھی کہ گیٹ کھل گیا ۔ چچا اور پاپا فارم میں داخل ہوئے جو شاید مجھے غائب دیکھ کر اور پھر کتے کے غرانے کی آوازیں سن کر فارم ہاؤس کی طرف بھاگے تھی۔ میں بہت بری طرح سے گھبرائی ہوئی تھی اور مجھ پے سکتہ طاری تھا۔ مجھے فوراً واپس چاچو کے گھر میں پہنچا دیا گیا۔ جہاں میرے ہوش بحال ہونے میں کافی دیر لگ گئی۔ تب میرے قریب تھے اور سب ہی میری حالت پر پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ میری حالت قدرے سنبھلی تو پاپا نے مجھ سے پوچھنے کی کوشش کی کہ فارم میں مجھ پر کیا افتاد آن پڑی تھی۔ میں چند لمحے خاموش رہی پھر ہمت کرکے بولنا شروع کیا اور سب کو بتانے کی کوشش کی کہ فارم میں مجھ پر کسی انجان مخلوق نے حملہ کیا تھا اور میرا تعاقب کیا، وہ میرے سر پر پہنچ چکی تھی جب سکیِٹو نے اس پر حملہ کرکے اس سے میری جان بچائی۔۔۔۔۔” اس سے پہلے کہ میں کچھ اور بولتی اور اس مخلوق کا حلیہ بیان کرتی چچا جان نے میری بات کاٹ دی اور بولے “ارے بیٹا یقیناً وہ کوئی لومڑ ہوگا ۔ اس علاقے میں لومڑ اکثر نظر آجاتے ہیں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں آج تک لومڑ کے حملے سے کسی انسان کی موت نہیں ہوئی اس علاقے میں” ۔.میں جانتی تھی کہ وہ لومڑ نہیں تھا بلکہ ایک خوفناک عفریت تھا مگر چاچو کی اس بات پر میں خاموش ہوگئی۔ اور ہم گھر واپسی کے لیے نکل پڑے۔ اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو میرے دل سے رہا سہا خوف بھی جاتا رہا۔ اور یہ سب محض ایک ڈراؤنے خواب جیسا لگنے لگا۔

اور چند دن میں میں واقعی یہ سونے لگی کہ کہیں واقعتاً ایسے تو نہیں کہ وہ مخلوق دراصل ایک لومڑ یا کوئی اور مقامی جانور ہو جسے میں تنہائی، خوف اور کمرے میں روشنی کم ہونے کی وجہ سے ڈروانا عفریت سمجھ بیٹھی ہوں ؟ یوں ہی چند ہفتوں میں بات آئی گئی ہو گئی۔ ایک ماہ گزر گیا اور میں اس واقعے کو تقریباً فراموش ہی کرچکی تھی کہ گھر میں پھر سے سب کا چچا ہے ہاں جانے کا پروگرام بننے لگا۔ ایک لمحے تو میں بری طرح سے جھجھکی لیکن پھر یہ سوچتے ہوئے ساتھ جانے کو تیار ہوگئی کہ اب بھول کر بھی فارم کا رخ نہیں کروں گی۔ اسطرح ہم چاچو کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ گاڑی سے اترنے کے بعد میں نے فارم ہاؤس کی طرف ایک نظر دیکھا بھی نہیں اور اس سے نظریں چراتے ہوئے سب کے ساتھ چاچو کے گھر پہنچ گئی۔ سب کچھ ایک دم نارمل تھا ۔ گویا وہ واقعہ سب کو ہی بھول چکا ہو۔ میں چچا کے گھر سب سے ملنے کے بعدکچن میں چلی گئی جہاں چچی ککنگ میں مصروف تھیں۔ انہوں نے حسب معمول مجھے پیار کیا اور حال احوال پوچھا۔ “بیٹا اوپر جاؤ اور سٹور روم سے اس میں چینی بھر لاؤ پلیز” آنٹی نے مجھے ایک جار پکڑاتے ہوئے کہا ۔ میں جار پکڑے چوبی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دوسری منزل پر پہنچی ۔ سٹور روم گیلری کے اختتام پر تھا۔ گیلری میں نیم تاریکی کا سماں تھا۔ میں نے سٹور روم کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئی۔ چینی سے بھری پیٹی سامنے ہی پڑی تھی۔ میں اسے کھول کے جار میں چینی بھرنے لگی۔ وہی لمحہ تھا جب میں نے کمرے میں ایسی آوازیں سنیں جیسے لکڑی کی کسی چیز کو ناخنوں سے کریدا جا رہا ہو۔ اور میری نظریں خود بخود کمرے کے چوبی شیڈ کی طرف گھوم گئیں جس پے وہی عفریت بیٹھ کر پشت میری جانب کیے دیوار کو کھرچ رہا تھا۔میرے ہاتھ سے جار چھوٹ کر زمین پے جا گرا۔ نہیں۔ پھر سے نہیں۔ میں نے چیخنے کی کوشش کی لیکن میری آواز نے میرا نہ دیا ۔ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میرے جسم میں جان نہ رہی ہومیں نے پلٹ کر دروازے کی طرف بڑھنا چاہا تو مجھے لگا جیسے میرے قدم من من کے ہوچکے ہوں۔

تبھی میں نے اسے شیڈ سے اترتے دیکھا۔ میں نے جسم کا پورا زور صرف کرتے ہوئے خود کو دروازے کی طرف دھکیلا اور دروازے سے ٹکرائی۔ دروازہ کھل گیا اور میں ایسے زمین پے گر گئی کہ میرا آدھا جسم کمرے میں اور آدھا گیلری میں تھا۔ تبھی مجھے کسی نے بازو سے پکڑ کے جھٹکے سے اپنی طرف کھینچ لیا اور میرے حلق سے چیخ نکل گئی۔ “بیٹا گھبراؤ نہیں یہ میں ہوں ” میرے کانوں میں چاچو کی آواز پڑی اور میری جان میں جان آئی۔ چاچو نجانے کب اوپر آئے تھے اور انہوں نے مجھے دروازے سے باہر گرتے دیکھا تو بازو سے پکڑ کے باہر اپنی طرف کھینچ لیا۔ اب چاچو کی نظریں سٹور کے اندر کا جائزہ لیا رہی تھیں اور ان کے چہرے پے خوف و فکر کے ملے جلے تاثرات تھے۔ بیٹا۔ میرے ساتھ آؤ ۔ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ چچا نے میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے نیچے کی جانب لے جاتے کہا۔ اور میں ڈری سہمی ان کے ساتھ چل پڑی۔ چاچو مجھے ساتھ لیتے ہوئے واپس پہلی منزل پر آئے اور باہر صحن کی طرف چل دیے۔ بیٹا ۔ بھلے ہی آپ ابھی بہت چھوٹی ہو۔ لیکن جو کچھ میں بتا رہا ہوں اسے غور سے سننا اور ذہن نشین کر لینا۔ کیونکہ معاملہ تمہاری زندگی اور سلامتی کا ہے. آج سے 50 سال پہلے یہ فارم ہاؤس تمہارے دادا نے ایک اجنبی شخص سے خریدا تھا ۔وہ شخص اتنی کم قیمت میں فارم ہاؤس فروخت کررہا تھا کہ اتنی قیمت میں اس دور میں بمشکل دس مرلے کا ایک گھر ہی خریدا جاسکتا تھا اور اس کی وجہ ہمیں کئی سال بعد سمجھ آئی۔ جیسے ہی میں 17 سال کا ہوا بابا نے مجھے بھی اپنے ساتھ فارم کے کام پے لگادیا ۔ اس فارم پے مجھے ہمیشہ ایک عجیب سا احساس رہتا ہے۔ ایسے، جیسے مجھے ہر وقت کوئی دیکھ رہا ہو۔ کسی کونے کھدے کسی جھاڑی کسی باڑ سے ہر وقت مجھ دیکھے جانے کا احساس ہوتا تھا۔ اور ساتھ ہی اکثر مجھے فارم کے مختلف حصوں میں ایسی آوازیں سنائی دیتیں جیسے لکڑی کو کسی نوکیلی چیز سے کریدا جارہا ہو ۔ شروع شروع میں تو میں یہی سمجھتا رہا کہ یہ آوازیں چوہوں یا چھچھوندر کے لکڑی کے تختوں پر بھاگنے دوڑنے کی آوازیں ہیں۔ لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ ان آوازوں میں بھی شدت آتی جارہی تھی اور اس عجیب و غریب بےمعنی احساس میں بھی۔ پورا دن فارم پے کام کرتے وقت مجھے ان آوازوں سے بری طرح سے کوفت ہوتی اور کام میں خلل آتا تھا۔ میں نے بابا سے اس بارے میں بات کی لیکن انہوں ایسی کوئی آواز سنائی دینے سے یکسر انکار کردیا۔ اور یہ کہا کہ ایسی آوازیں چوہوں اور گلہریوں کی ہی ہوسکتی ہے۔ ایک روز میں مویشیوں کے احاطے میں بھوسے والے ہٹ میں مصروف تھا کہ دائیں طرف کی دیوار میں سے وہی کھرچن کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اور حسب معمول جب شروع ہوئیں تو جیسے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ اس روز پہلے ہی میری طبعیت ناساز اور موڈ خراب تھا۔ اوپر سے ان آوازوں نے جیسے میری زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ اس دن میں نے فیصلہ کیا کہ ان آوازوں کا منبع پتا کر کے ہی رہوں گا۔ میں فورا اوزاروں کے شیڈ تک گیا اور وہاں سے ایک آہنی ہتھوڑا نکال لایا۔ اور دیوار پر جہاں سے آوازیں ابھر رہیں تھیں اس جگہ پوری طاقت سے ہتھوڑے کے کئی وار کئے ۔ لکڑی سے بنی دیوار کچھ دیر میں ہی ٹوٹ گئی اور اس کے اندر سے ایک کوئی چیز میرے قدموں میں آ گری۔ میں نے دیکھا تو مجھے حیرت اور خوف کا شدید دھچکا لگا۔ وہ ایک لاش تھی۔ بہت پرانی لاش۔ جس کا سارا گوشت گل سڑ چکا اور وہ دیکھنے میں انتہائی کریہہ اور بدشکل معلوم ہورہی تھی۔ مگر دیوار کے اندر وہ لاش آئی کہاں سے؟؟ یقینا جس شخص نے اس کو قتل کیا ہوگا اس نے ہٹ تعمیر کرتے وقت لکڑی کی دو پرتوں کے درمیان اسے پھنسا کر کیلوں کے زریعے اس دیوار میں چن دیا ہوگا۔ میں بھاگتا ہوا گھر واپس گیا اور بابا کو لاش کی برآمدگی کی اطلاع کی۔ بابا نے گھبراہٹ میں فی الفور پولیس کو اطلاع کردی۔ جب پولیس اہلکار فارم پر پہنچے اور ہم نے انہیں لاش دکھائی تو ڈیوٹی پر موجود انسپکٹر نے لاش کی جانچ کرتے ہوئے کہا کہ “یہ لاش کم از کم پچاس سال پرانی ہے”. پولیس نے ضروری قانونی کارروائی کرنے کے بعد لاش کو تحویل میں لیا اور سرکاری سرد خانے تک پہنچا دیا۔ ۔ پولیس نے ہم سے فارم کے سابق مالک سے متعلق کوائف طلب کیے اور بابا نے انہیں فارم کی فروخت کی دستاویزات فراہم کردیں۔ اس کے بعد المختصر یہ کہ لاش کے پوسٹ مارٹم کے بعد اتنا ہی معلوم ہوپایا کہ وہ لاش ایک جوان عورت کی تھی۔ اور اس کے مرنے کی ممکنہ وجہ دم گھٹنا ہوسکتی ہے۔ بقول ڈاکٹرز اس عورت کو یقیناََ بیہوشی کی حالت میں ہی دیوار میں چن دیا گیا ہوگا اور ہوش میں آنے پر اس نے گھبراہٹ میں دیوار سے نکلنے کی بہت کوشش کی ہوگی۔ بہت ہاتھ چلائے ہونگے۔ مگر نہ نکل سکی اور دم گھٹنے سے ایک بھیانک اذیت ناک موت کا شکار ہوگئی۔ اس کے چند دن بعد وہ پراسرار لاش سرد خانے سے غائب ہوگئی۔ اور پولیس کو فارم کے سابق مالک کا بھی کوئی سراغ نہ مل سکا۔لیکن چند روز بعد پھر سے فارم میں وہی لکڑی کریدنے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔

اور بیٹا پھر شاید ہی ایسا کوئی دن ہو کہ میں نے اس مکروہ لاش کو فارم میں کہیں کسی کونے کسی کمرے میں دیوار کریدتے نہ دیکھا ہو۔وہ بہت خطرناک عفریت ہے جو نفرت کی آگ میں جھلس رہی ہے۔لیکن میں نے اور بابا نے اس عفریت سے بچے رہنے کا ایک طریقہ دریافت کرلیا اور وہ تھا اسے یکسر نظر انداز کردینا۔ بھلے وہ عفریت جان لیوا مخلوق ہے مگر وہ اسی صورت انسان پر حملہ اور اس کا تعاقب کرتی ہے جب کوئی اس کی طرف متوجہ ہو۔ اسکی طرف دیکھے یا اس پر حملہ کرنے کی کوشش کرے۔

میں نے تب سے اب تک یہی روٹین اپنائی ہے کہ جب بھی کبھی مجھے فارم میں کہیں لکڑی کردیدنے کی آوازیں سنائی دیتیں یا اس عفریت کی جھلک نظر آتی تو میں اسے یکسر نظر انداز کرکے وہاں سے ہٹ جاتا اور اپنے کام میں مگن ہوجاتا۔ اس طرح دوبارہ کبھی مجھ پر حملہ نہیں ہوا۔

بیٹا ۔ وہ عفریت لکڑی اس لیے کریدتی ہے کہ اس کی موت بھی لکڑی کریدتے کھرچتے ہوئی تھی۔ اور حملہ اس لیے کرتی ہے کہ اس کا قاتل بھی اسی فارم سے تعلق رکھتا تھا۔

اب اس عفریت کی نظر تم پے پڑ چکی ہے۔ وہ آسانی سے تمہارا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ شاید وہ تمہارے گھر اور سکول تک بھی تمہارا تعاقب کرے۔ لیکن یہ تعاقب زیادہ لمبے عرصے نہیں چلے گا اگر تم نے اسے مسلسل نظر انداز کرنے کی عادت اپنا لی تو۔لیکن ایسا کرنا شاید تمہارے لیے کہیں زیادہ مشکل ہو۔ کیونکہ ایک تو تم لڑکی ہو۔ اور دوسرا کم عمر ہو۔ چاچو بولتے جارہے تھے اور میں خاموشی سے سنتی جارہی تھی۔ مجھے یہ سب ایک بھیانک خواب جیسا لگ رہا تھا اور میں اس وقت کو کوس رہی تھی جب میں نے اس منہوس فارم ہاؤس میں قدم رکھا تھا۔ ساتھ ہی میں نے دل ہی دل میں یہ فیصلہ کرلیا کہ اب کبھی چاچو کے ہاں نہیں جاؤں گی۔وہ چھوٹا سا ایڈونچر میرے لیے زندگی موت کا مسئلہ بن چکا تھا۔اس شام ہم گھر واپس لوٹ آئے اور تبھی سے میرے لیے خوف و وحشت کا نیا دور شروع ہوگیا۔

اس رات میں نے حسب معمول ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد میں نے اگلے دن کے لیے سکول بیگ تیار کیا اور سونے کے لیے لیٹی۔ابھی کمبل اوڑھا ہی تھا کہ مجھے ایسی آوازیں سنائی دیں جیسے کوئی میرے بیڈروم کے دروازے کو باہر سے کھرچ رہا ہو۔ساتھ ہی مجھے ایسی آوازیں سنائی دینے لگیں کہ جیسے کوئی کھڑکی کے شیشے پر انگلی سے دستک دے رہا ہو۔میں نے چاچو کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سختی سے آنکھیں بھینچ لیں اور کمبل کو خوب اچھی طرح اپنے گرد لپیٹ لیا اور آیات کا ورد کرتے ہوئے سونے کی کوشش کرنے لگی۔کافی دیر تک وہ مکروہ آوازیں سنتے سنتے میری آنکھ لگ گئی۔خواب میں میں نے دیکھا کہ میں پتھروں سے بھری ایک نیم تاریک وادی میں ننگے پاؤں بھاگ رہی ہوں اور وہی خونی عفریت میرا پیچھا کررہی ہے۔ نوکیلے پتھر لگنے سے میرے پاؤں زخمی ہورہے ہوتے ہیں اور ان سے خون بہتا ہوا زمین پر میرے قدموں کے نشان بنارہا ہوتا ہے۔اچانک ایک پتھر سے ٹھوکر لگتی ہے اور میں منہ کے بل گر جاتی ہوں آن کے آن میں وہ عفریت میرے سر پر پہنچ جاتی ہے اور اپنے نوکیلے پنجوں سے میرے جسم کا ایک ایک عضو ادھیڑ کے رکھ دیتی ہے۔ یہ خواب دیکھ کے خوف کے مارے میری آنکھ کھل گئی۔ میں پسینے میں شرابور تھی اور میرا جسم بری طرح سے کانپ رہا تھا۔”مجھے یہ بات گھر میں سب سے چھپا کر پی رکھنی ہوگی چاہے جو کچھ بھی ہو جائے ۔ میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ وہ عفریت میرے گھر میں کسی اور پر بھی مسلط ہو جائے” میں نے جاگتے ہی سوچا۔

اس کے بعد سے یہ معمول بنتا چلا گیا ۔ مجھے گھر ، سکول ، کار غرض ہر جگہ اس بلا کی کھرچنے کی آواز سنائی دیتی اور چند مرتبہ تو اس کی جھلک بھی دکھائی دی لیکن میں نے ہر مرتبہ دل پے جبر کرکے اسے نظر انداز کرنا جاری رکھا۔

تاہم اس سے میری صحت پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے۔ میری نیند اور بھوک اڑ چکی تھی۔ رنگت زرد پڑ گئی اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے بن گئے۔ میں سکول کے کام میں کمزور ہونا شروع ہوگئی اور میرے گریڈز میں بھی کمی آنے لگی۔اس سب صورتحال پر میرے والدین بہت پریشان تھے اور یکے بعد دیگرے کئی ڈاکٹرز اور سپیشلسٹس سے میرا معائنہ بھی کروایا گیا تاہم کسی بھی مرض کی تشخیص نہ ہو پائی۔ بلکہ مجھے تو ڈاکٹر کے کلینک اور ہاسپٹلز میں بھی وہی منحوس کھرچن کی آواز ہی سنائی دیتی۔تین ماہ میں میری حالت اتنی بگڑ چکی تھی کہ سکول انتظامیہ نے مسلسل بری کارکردگی دکھانے اور صحت کی خرابی کی وجہ سے مجھے مزید پڑھانے سے معذرت کرلی ۔ اور سکول سے میرا نام خارج کردیا گیا ۔دوسری طرف اب میں اتنی کمزور ہوتی جارہی تھی کہ مجھے ہاسپٹلائز کیے بغیر اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اور یوں مجھے شہر کے ایک معیاری اور اچھے ہاسپٹل میں ایڈمٹ کردیا گیا۔میرے پورے خاندان پر میری وجہ سے پریشانی اور تکلیف کا دور شروع ہوچکا تھا اور مجھے اس بات کی بھی الگ شرمندگی تھی۔لیکن پھر ایک دن۔ ۔ مجھے وہ آواز نہ سنائی دی۔پورے چوبیس گھنٹے گزر گئے اور وہ منحوس آواز نہ سنائی دی پھر سے۔کیا میری تکلیف کے اختتام کا وقت آن پہنچا ہے؟ کیاوہ عفریت میرا پیچھا چھوڑ چکی ہے یا پھر میں اب موت کے اتنے قریب ہوں کہ مزید کوئی خوف مجھے تکلیف نہیں دے پارہا ؟ اگلے روز میں نے سوچا۔لیکن تین دن گزر گئے اور مجھے پھر وہ آواز دوبارہ نہ سنائی دی۔دس_سال_بعد اس واقعہ کو دس سال کا طویل عرصہ بیت چکا ہے۔ اور اس دن کے بعد نہ تو مجھے کبھی ایسی کوئی آواز سنائی دی۔ اور نہ ہی کبھی اس مکروہ عفریت سے سامنا ہوا۔جس دن سے مجھے وہ آوازیں آنا بند ہوئی تھیں اسی دن سے میری طبعیت بھی سنبھلنا شروع ہوگئی تھی۔ اور مزید ایک ہفتہ ہاسپٹل میں گزارنے کے بعد مجھے صحت بہتر ہو جانے پر ڈسچارج کردیا گیا تھا۔ اسکے بعد میں کبھی چاچو کے ہاں نہیں گئی۔ اور تو اور میں نے دوبارہ اس سکول میں بھی ایڈمیشن لینے کی کوشش نہ کی جس سے میری تلخ یادیں وابستہ تھیں۔

مجھے اس سے بھی اچھے اور معیاری سکول میں با آسانی ایڈمیشن مل گیا تھا۔ اور اب 10 سال بعد میں ایک پراسیکیوٹر کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کررہی تھی۔ چاچو نے ایک سال قبل اپنا فارم اور گھر کسی کنسٹرکشن کمپنی کو اچھے داموں فروخت کردیا جنہوں نے فارم کو مسمار کر کے فارم اور اس کے اردگرد کی وسیع زمین پر ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کی بنیاد رکھ دی ۔

چاچو نے اور ہمارے ہی شہر میں ایک گھر اور چند دکانیں خرید لی تھیں۔ بقول ان کے “اس عمر میں مجھ سے اب زیادہ محنت والا کام نہیں ہوتا”. مجھے۔ ۔ اس کمپنی، اس کے کارکنان اور اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں کچھ عرصے بعد مکان خریدنے والوں سے دلی ہمدردی ہے۔ کیونکہ وہ سب نہیں جانتے کہ بہت جلد ان کے ساتھ کیا کچھ ہونے

جارہا ہے۔(ختم شد)

---Advertisement---

Leave a Comment