---Advertisement---

Ajeeb School Horror Story in Urdu

Published On:
---Advertisement---

Ajeeb School Horror Story in Urdu

The Horror Story in Urdu “Ajeeb School” is a masterpiece of contemporary literature, penned by the renowned author Tariq Ismail Sagar. This captivating tale is a testament to the power of Urdu storytelling, delving into the realm of the supernatural and exploring the darker side of human experience. Through the Horror Story in Urdu “Ajeeb School”, Sagar skillfully weaves a chilling narrative that showcases the best of Urdu horror, making “Ajeeb School” a beloved classic among readers.

 

At its core, the Horror Story in Urdu “Ajeeb School” is a gripping exploration of fear, superstition, and the unknown, cementing its place as a landmark in Urdu horror literature. Sagar’s masterful storytelling brings to life the world of his protagonist, a young student navigating the treacherous landscape of a haunted school, where the lines between reality and nightmare are blurred. As a result, the Horror Story in Urdu “Ajeeb School” continues to captivate audiences, inspiring new generations of readers and writers alike.

 

The Horror Story in Urdu “Ajeeb School” remains a cherished favorite among literary enthusiasts, thanks to its masterful storytelling and chilling narrative. Sagar’s writing has ensured that the Horror Story in Urdu “Ajeeb School” continues to resonate deeply with readers, showcasing the power of Urdu storytelling to evoke emotions and spark imagination. If you haven’t already, immerse yourself in the haunting world of the Horror Story in Urdu “Ajeeb School” and discover why this tale remains a timeless classic in the world of Urdu literature, with “Ajeeb School” being a must-read for fans of Urdu horror stories.

عجیب سکول

اسکول ویسے تو خاموش ہوتے ہیں لیکن آج میں آپ کو اک ایسے اسکول کے بارے میں بتانے جا رہا ہوں جو سب اسکولز سے بے حد عجیب تھا۔ یہ اک سچی کہانی ہے جو میں آج کو سنانے جا رہا ہوں۔ تو کہانی شروع کرنے سے پہلے میں آپ کو اپنا تعارف کراتا چلوں کے ایک پرائیویٹ اسکول ٹیچر ہوں اور کافی اسکولز میں پڑھا چکا ہوں یہ اسکول میرے لئے نیا تھا پرانے اسکول کو الوداع کہہ کر یہ اسکول جائن کیا تھا۔مجھے پہلے دن ہی اسکول تمام خاموش سا لگا میں نے کسی کو محسوس نہ کرایا اور پڑھاتا رہا۔کچھ دن بعد میں نے اس اسکول کے ایک پرانے ٹیچر کو کہا کہ کیا یہ اسکول تمہیں عجیب نہیں لگ رہا اس نے مسکراتے کہا۔صرف لگتا نہیں ہے بھی۔اس نے پھر مجھے جو واقع سنایا وہ میں آج آپ کو سنانے جا رہا ہوں۔یہ اسکول اک تمام خوبصورت اسکول تھا جو کے نرسری سے لے کر آٹھویں جماعت تک تھا۔اس میں 10 کمرے اک آفیس اور ایک کمپیوٹر لیب تھا۔جہاں پر اسٹوڈنٹس کو کمپیوٹر کی تعلیم دی جاتی تھی۔وہ فل ایئر کنڈیشنڈ تھا اور اس کے باہر گیلری تھی جو کے ساری تصویروں سے بھرپور تھی جس پر ان سب کی تصویریں تھی جو کچھ نا کچھ کر گزرے ہیں مطلب کے ایجادات یا جو چیف کرنل جنرل رہ چکے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کے اس اسکول کا جو مالک تھا وہ دعوت اسلامی کا والنٹیئر تھا جو ان کو چندا لے کر دینے یا تبلیغ دین اسلام میں مدد کرتا تھا۔ تو اس کے پاس دعوت اسلامی کے طالب علم آتے رہتے تھے۔ایک مرتبہ ان کے پاس ایک طالب علم تبلیغ کے حوالے سے آیا جس کو واپس جانے میں دیر ہو گئی تو اسکول کے مالک نے اس کو کہا کے آپ کو بے حد دیر ہو چکی ہے آپ آج رات ہمارے اسکول میں گزاریں اور کل صبح ہوتے ہی واپس چلے جائیں۔اس نے ہاں کر دی اور اسکول میں آیا ویسے شام ہوگئی تھی اور رات ہونے والی تھی تو سب اس کے ساتھ تھے گرمیوں کا موسم تھا۔.اور ہمارے شہر میں رات 12 بجے بجلی آتی ہے تو سب اس انتظار میں تھے کے بجلی آئے تو ہم گھر جائیں اور طالب علم کو اسکول میں ای سی چلا کر دے کر ہم سب گھر جائیں 12 بجے تک تو وہ سب اس کے ساتھ تھے لیکن جیسے وہ گئے اس نے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے ہم اس طالب علم کو رات کے 12 بجے اس کو کھانا کھلا کر اور بسر وغیرہ دے کر اس ویران اسکول میں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔کیوں کے اسکول ہمارے گھر سے تھوڑا ہی دور واقع تھا تو ہم اس کو کہہ کر گئے تھے اگر کوئی بھی ضرورت ہو تو فون کر کہ بتا دیجئے گا۔یہ کہہ کر ہم روانہ ہوئے جیسے ہم روانہ صبح اسکول آئے تو کیا دیکھا وہ طالب علم اس کمرے کے ایک کونے میں در سے مارے کانپ رہا تھا ہم نے حالات معلوم کئے تو اس نے بتایا۔۔۔۔۔جیسے آپ اسکول سے گئے تو میں نے سونے کا سوچا کیوں کے مجھے فجر کو اٹھنا تھا تو میں نے جلدی سونے کا پروگرام بنایا لیکن میں جیسے ہی سونے کے لیئے بستر پر لیٹا تو اسکول کا باہر والا میں کیٹ کھٹکتا سنا۔میں نے سوچا آپ آئے ہیں پھر سے میں دروازے پر گیا جیسے ہی میں نے دوروزہ کھولا اور دیکھا وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔میں تھوڑا گھبرایا لیکن پھر دل میں خیال آیا کہ وہم ہوگ میں پھر اندر کمرے میں آیا اور اندر والا دروازہ بند کر کے سونے لگا میں جیسے ہی سونے کے لیئے بستر پر لیٹا تو میں نے پھر دروازے کے بجنے کی آواز سنی پھر میں دوڑا دروازے کی جانب کے دیکھوں یہ ہے کون جو اتنی رات کو تنگ کر رہا ہے میں جب دروازے پر پہنچا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیوں پھر سے وہاں کوئی نظر نہیں آیا اب میں جان گیا تھا کہ کچھ تو ہے پھر میں اب ڈر بھی رہا تھا اور سوچ بھی رہا تھا کہ ہو سکتا ہو میرا وہم ہو۔اس طرح دل کو تسلی دیتے ہوئے میں اپنے کمرے میں داخل ہوا اور بستر پر لیٹنے لگا جیسے ہی سونے کے لیئے بستر پر لیٹا تو پھر دروازے بجا لیکن اب کی بار باہر والی گیٹ نہیں اور نا ہی اسکول کے اور کمرے کی اب کی بار ٹھیک میرے کمرے کا دروازہ کھٹکا میں دنگ رہ گیا کے اس اسکول میں میرے سوا اور کوئی نہیں تو یہ دروازے پر کون ہے یہاں میرے دل کی دھڑکن تیز یو گئی اور میں ڈر کے مارے ورد کرنے لگا میں نے ہمت کی اور دروازہ کھولنے کے لیئے آگے بڑھا جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا میری تو روح کانپ اٹھی گیلری میں جتنی بھی تصاویر لگی کرنل جنرل انوینٹر ڈسکور جن میں کچھ تو حیات تھے لیکن زیادہ تر مر چکے تھے وہ سب زندہ ہو کر میرے سامنے کھڑے تھے اور مجھے کہ رہے تھے باہر نکلو ہیں تم سے بات کرنی ہے۔.میں نے جلدی سے دروازہ اندر سے لاک کر دیا لیکن دروازہ خود بخود کھل گیا اور وہ سب مجھے گھسیٹ کر باہر لے گئے اور پتا نہیں کیا پڑھنے لگے میں خوف کے مارے بی ہوش ہو گیا لیکن میں جب ہوش میں آیا تو پھر کوئی بھی دکھائی نہیں دیا میں نے اپنا موبائیل بے حد تلاش کیا لیکن نا ملا پھر جب صبح سورج طلوع ہونے ہونے کے بعد میں باہر نکلا تو وہ سہن میں گرا ہوا ملا مجھ پر اس قدر خوف طاری ہو چکا تھا کے پوری رات ایک کونے میں بیٹھ کر گراز دی اور وہاں سے ہلنے تک کی ہمت نہ تھی اور اب بس یہ انتظار تھا کہ کب صبح ہو اور کب میں اس اسکول سے نکلوں۔ اس کے بعد کبھی کسی کو اس اسکول میں رات کو اکیلا نہ رہنے دیا۔ امید کرتا ہوں یہ سچی کہانی آپ کو بے حد پسند آئی ہوگی اپنے رائے سے ہمیں آگاہ کریں اور ملتے ہیں پھر مزید ایسی سچی کہانیوں کے ساتھ تب تک کے لیئے اللہ حافظ۔

---Advertisement---

Leave a Comment