Adha Inaam true good moral Story in Urdu
Aadhha Inaam: Ek Achchi Siikh
Ek garib mistry ka ek betta tha, jo ek din ek bada kaam dhandha shuru karna chahta tha. Usne apne pita se kaha, “Pita ji, mujhe ek rupya do, main usse ek bada kaarobaar shuru karunga.” Pita ne kaha, “Beta, main tereko ek rupya dunga, lekin tumhe mere saath kaam karna hoga aur main tumhe aadhha inaam dunga.” Beta mana karne laga, lekin pita ne kaha, “Aadhha inaam bhi bohot hai, beta.”
Beta ne pita ke saath kaam kiya aur ek bada kaarobaar shuru kiya. Phir pita ne use aadhha inaam diya aur kaha, “Yeh dekho, beta, aadhha inaam bhi kitna bohot hai!” Beta ko samjh mein aaya ki pita ne use sahi siikh di thi.
Aaj bhi hum sabko aadhha inaam ki zaroorat hai, taaki hum apne kaam mein sahi tarah se kaam kar sakein aur apne parivaar ke saath khushiyon mein zindagi guzaren.
Translation:
Half Reward: A Good Lesson
A poor mason’s son wanted to start a big business one day. He asked his father, “Father, give me one rupee, I will start a big business with it.” The father said, “Son, I will give you one rupee, but you have to work with me and I will give you half the reward.” The son hesitated, but the father said, “Half the reward is also a lot, son.”
The son worked with his father and started a big business. Then the father gave him half the reward and said, “See, son, half the reward is also a lot!” The son understood that his father had given him a good lesson.
Even today, we all need half reward, so that we can work correctly in our work and live a happy life with our family.
ادھا انعام
داور کا تعلق غریب گھرانے سے تھا پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد وہ پڑھائی چھوڑ کر اپنے چھوٹے سے شہر کے ایک موٹر مکینک کے پاس یومیہ اجرت پر کام کرنے لگا وہ محنتی اور ایماندار ہونے کے ساتھ ساتھ سچا اور کھرا انسان بھی تھا ابھی اس کی عمر 15 برس تھی کہ والد کی شفقت سے محروم ہو گیا گھر میں اب اس کی بیوہ ماں اور ایک چھوٹی بہن رہ گئی تھی داور کسی طرح زندگی کی گاڑی کھینچ رہا تھا کہ ایک روز اس کا اپنے مالک سے جھگڑا ہو گیا استاد نے داور کو ایک موٹر سائیکل میں دھوکے سے غیر معیاری پھولتا ڈال کر اس کے مالک سے زیادہ پیاسے وصول کرنے کو کہا تو اس نے انکار کر دیا استاد نے غصے سے اسے کل کام پر نہ انے کا کہہ دیا تو وہ اپنا حساب کتاب کر کے دکان سے نکلا اور ایک ہوٹل پر جا کر بیٹھ گیا وہ سوچ رہا تھا کہ اب کیا ہوگا اس پریشانی میں اس نے اپنے لیے ایک کپ چائے کا ارڈر کیا اس کے قریب ہی ایک ادمی موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا اس کی پوچھ داور کی طرف تھی اور وہ اس کی موجودگی سے بے خبر تھا اگرچہ وہ بہت اہستہ اواز میں بول رہا تھا مگر داور اسے سن سکتا تھا وہ کسی کے اغوا کی بات کر رہا تھا سے وہی مل اونر ہاں 10 سال کا ایک ہی بیٹا ہے احمد نام ہے اس کا ہاں ہاں پیسے بھی تمہیں مل جائیں گے مگر یاد رکھو کوئی گڑبڑ نہ ہو چلو ٹھیک ہے اب خون بند کرو بس کالج کی چھٹی ہونے والی ہے تم تیار رہو اور پھر ہوں ہاں کے چند اوازیں داور کے کانوں میں پڑنے لگی داور کی چائے ا چکی تھی اس دوران وہ ادمی بات ختم کر کے وہاں سے اٹھ کر چلا گیا سیٹ عرفان ان کے علاقے کی ایک مشہور شخصیت تھے وہ ایک بڑے کارخانے کے مالک تھے اور بہت ہی سخی اور شفیق انسان تھے داور کو یقین تھا کہ وہ ان کے بیٹے کی کو اغوا کرنے کی بات کر رہا تھا داور سوچ رہا تھا کہ اتنے اچھے شخص کے بیٹے کو اور وبا کر کے اس سے رقم بٹوری جائے یہ تو غلط ہے مجھے یہ واردات ہونے سے پہلے سیٹھ عرفان کو اگاہ کرنا ہوگا کیونکہ احمد ان کا اکلوتا بیٹا ہے اور وہ اپنی اکلوتی اولاد کی خاطر کوئی بھی قیمت ادا کر سکتے ہیں لیکن میں ان اغوا کاروں کو اگر یہ گنا ہونا کھیل نہیں کھیلنے دوں گا اسی مقصد کو دل میں لیے وہ کرسی سے اٹھا اور ہوٹل کے باہر اگیا اب اس کے قدم تیزی سے سیٹھ عرفان کی فیکٹری کی طرف اٹھ رہے تھے جب وہ فیکٹری کہ گیٹ پر پہنچا تو گارڈ نے اسے اندر جانے سے روک دیا گارڈ کو اس نے بتایا کہ میرے پاس سیٹھ صاحب کے لیے ایک اہم خبر ہے اور میرا سر صاحب سے ملنا بہت ضروری ہے لیکن گارڈ لیں پھر بھی اسے اندر جانے سے منع کر دیا جب وہ مایوس ہو کر واپس لوٹنے لگا تو گاڑ نے کہا میری یہ شرط ہے اگر تم اس شرط کو پورا کرو تو اندر جا سکتے ہو داور نے سوالیہ نظروں سے گارڈ کی طرف دیکھا توگار ڈ نے اسے اپنے دل کی بات کہی وہ بہت لالچی تھا کہنے لگا میرے سیٹ صاحب بہت سخی ادمی ہیں ہو سکتا ہے تمہارے پاس جو خبر ہے وہ واقعی ان کے لیے بہت اہم ہو اور وہ خوش ہو کر تمہیں کچھ انعام دے دیں اس لیے تو مجھ سے وعدہ کرو کہ وہ تمہیں جو بھی انعام دیں گے تو اس میں سے ادھا انعام مجھے دھو کے لیکن دعوت کو انعام کی نہیں بلکہ ایک معصوم جان کی فکر تھی جو صرف کچھ ہی منٹوں میں ظالموں کے چنگل میں پھنس سکتی تھی لہذا کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ راضی ہو گیا تھوڑی دیر بعد وہ سیٹھ عرفان اور اس کے اسسٹنٹ کے سامنے تھا اس نے پورا واقعہ سنا دیا سیٹ صاحب نے پولیس کو فون کر کے مدد کی درخواست کی اس کے بعد انہوں نے داور سے کہا کہ تمہیں کیا انعام چاہیے تو داور نے کہا مجھے انعام کے طور پر 50 تھپڑ مارے جائیں یہ سن کر سیٹھ صاحب حیران ہوئے اور اس کی وضاحت چاہی لیکن داؤد نے کہا پہلے اپنا وعدہ پورا کریں اس کے اصرار پر انہوں نے اپنے ملازم سے کہا کہ اس ادمی کو تھپڑ مارے 25 تھپڑ کھانے کے بعد داور نے اسے رکنے کو کہا اور صحت صاحب سے بولا جناب باقی تھپڑ اپنے کارخانے کے گیٹ پر موجود گارڈ کو لگوائیں کیونکہ میں اس سے وعدہ کر کے ایا ہوں کہ مجھے جو انعام ملے گا اس میں سے ادھا اسے دوں گا سیٹ صاحب ساری بات سمجھ گئے انہوں نے گارڈ کو بلوایا اسے لالچی قرار دیتے ہوئے ہیں ملازمت سے فارغ کر دیا ادھر پولیس کے سادہ لباس میں ملحوس اہلکاروں نے تین ملزموں کو گرفتار کیا جو ایک کار میں سکول سے گھر جاتے ہوئے سیٹھ صاحب کے بیٹے کو اغوا کرنے کی کوشش کر رہے تھے سیٹھ صاحب نے اگلے دن دوبارہ رابطہ کر کے داور کو بلایا اور ان کے حالات جاننے کے بعد اسے اپنے کارخانے میں ملازم رکھ لیا انہوں نے داور سے کہا کہ اس کی بہن کی شادی کے تمام اخراجات بھی برداشت کریں گے اج داور کے گھر میں جشن کا سماں تھا اس کی امی نے پورے محلے میں مٹھائیں بانٹی اور اپنے بیٹے کو اچھی ملازمت ملنے پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا