Qabar Ka safar Horror Story in Urdu
The Horror Story in Urdu “Qabar Ka Safar” is a masterpiece of contemporary literature, penned by the renowned author Tariq Ismail Sagar. This captivating tale is a testament to the power of Urdu storytelling, delving into the realm of the supernatural and exploring the darker side of human experience. Through “Qabar Ka Safar”, Sagar skillfully weaves a chilling narrative that showcases the best of Urdu horror, making this Horror Story in Urdu a beloved classic among readers.
At its core, the Horror Story in Urdu “Qabar Ka Safar” is a gripping exploration of fear, superstition, and the unknown, cementing its place as a landmark in Urdu horror literature. Sagar’s masterful storytelling brings to life the world of his protagonist, a young man navigating the treacherous landscape of a haunted graveyard, making “Qabar Ka Safar” a standout tale in the world of Horror Stories in Urdu. As a result, this Horror Story in Urdu continues to captivate audiences, inspiring new generations of readers and writers alike.
The Horror Story in Urdu “Qabar Ka Safar” remains a cherished favorite among literary enthusiasts, thanks to its masterful storytelling and chilling narrative. Sagar’s writing has ensured that this Horror Story in Urdu continues to resonate deeply with readers, showcasing the power of Urdu storytelling to evoke emotions and spark imagination. If you haven’t already, immerse yourself in the haunting world of the Horror Story in Urdu “Qabar Ka Safar” and discover why this tale remains a timeless classic in the world of Urdu literature, with “Qabar Ka Safar” being a must-read for fans of the genre.
قبر کا سفر
۔
“قبر کا سفر ” کہانی کے ساتھ۔ یہ کہانی ایک گنھگار شخص کی ہے جو قبر مین ہر گناہ اور گنھگار کا انجام دیکھتا ہے ” اس دن اتوار کا دن تھا , مین کافی تھک چکا تھا , بچوں سے کھیل کود پھر شام مین پکنک پر گیا سارہ دن مصروفیت کی وجہ سے تھک کر چور ہو چکا تھا ۔ بچے اور بیوی باہر لؤن مین tv دیکھنے بیٹھ گۓ مین جلدی سے سونے چلا گیا ۔ سوتے ہی مجھے اس دن عجیب سی نیند آرہی تھی,جسم مین تھکاوٹ اور ہلنے کی جان نہیں تھی, انکھین نہ بند تھین نہ کھل پا رہین تھین, دماغ پر عجیب سہ وزن محسوس ہو رہا تھا انکھون کے سامنے کالی دھند چھانے لگی تھی۔۔۔کانون مین عجیب سہ شور ہو رہا تھا ۔۔۔۔پاؤں درد کرنے لگے تھے جیسے خون باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہو ۔۔۔۔اتنے مین آنکھوں کے سامنے مکمل اندھیرہ چھا گیا۔۔جیسے آہستہ سے میرے جسم سے جان ںکل رہی ہو ۔۔۔۔میری آنکھین بند تھین پھر بھی مجھے وہ ںظارے دکھائی دینے لگے تھے ۔۔۔نا چاہتے بھی دماغ مین ماضی کے پچھلے کیے گناہ یاد آرہے تھے ۔۔جیسے کوئی بھکاری بچہ مجھ سے بھیک مانگنے آیا اور مین نے اسے دھکہ دے کر ہٹا دیا ۔۔۔لڑکیوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ان سے کیے گناہون کی یاد ۔۔۔۔مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میرے کیے سارے گناہ کسی movie کی طرح میرے سامنے چل رہے تھے ۔۔۔مین جاگنے کی کوشش کر رہا تھا پر میرے جسم مین ذرہ سہ ہلنے کی طاقت نہ بچی تھی, جیسے ایک کھوکلی لاش کسی نہر مین تیر رہی ہو۔۔۔میرے کانون مین اذان کی آواز گونج رہی تھی اور اس دوران میرے ہسنے اور بات چیت کی یاد ۔۔۔۔۔نماز پر جان بوجھ کر نہ جانا۔۔۔ان سب یادون سے ایک خوف طاری ہونے لگا تھا ۔
پھر کچھ لمحون بعد مجھے کالے لباس مین ایک شخص دکھائی دینے لگا اور مجھ سے کہنے لگا۔۔۔مین ملک الموت ہون۔۔۔تمہارا وقت اس دنیا مین پورا ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔اور مجھے حکم ہوا ہے کہ تمہارای جان لی جائے, مین سن کر گھبرا گیا, روتے منت کرتے کہا خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو ۔۔۔۔۔میری ابھی مرنے کی عمر نہیں ہے ۔۔میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہین ۔۔۔اور مین نے قبر کے لیے کوئی تیاری بھی نہیں کی ہے۔۔اور میرے کوئی اچھے کام بھی نہیں ہین۔۔۔مین نے نمازین بھی نہیں پڑھین۔۔۔۔خدا کے لیے مجھے آخری موقع دو تا کہ مین نماز پڑھون۔۔۔اچھے کام کرون۔۔۔خدا کو راضی کرون تا کہ قبر کے عذاب سے بچ جاؤن۔ میری التجائین سن کر وہ مجھ سے افسوس کرنے لگا اور کہنے لگا ” اے ابن آدم کیا تمہین معلوم بھی تھا کہ موت کی کوئی عمر نہین۔۔تو تم نے یہ سب اچھے کام پہلے کیون نہیں کیے۔۔تم دنیا مین جس کام کے لیے آئے تھے وہ تم بھول گئے اور جنہون کے لیے تم نے دنیا مین کام کیا تو وہ آج تیرے سب کہاں ہین۔۔۔افسوس تم نے ساری زندگی بڑے بڑے واسطے بنانے وہ بھی آج تمہین موت سے نہیں بچا سکتے۔۔۔کیونکہ خدا کی طرف سے تمہاری جان لینے کا حکم ہوا ہے جسے کوئی بھی ٹال نہین سکتا۔۔اب تمہاراے جیسے اعمال ہونگے ویسہ ہی برتاؤ ہوگا تم سے ۔۔۔
وہ میری روح قبز کر چکا تھا اور اب مین اسی بیڈ پر لاش کی طرح سویا ہوا تھا , میرے چارون طرف میری بیوی بچے , اور خاندان والے موجود تھے , سب میرے لیے رو رہے تھے , کچھ فون پر ادھر أدھر میرے مرنے کی اطلاع دینے لگے, عورتین دھارین مار کر میری لاش پر رو رہیں تھین۔۔جن کی آواز سے میری روح کو تکلیف پہنچ رہی تھی۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔قبر کا سفر ۔۔۔۔۔
قسط۔۔۔02
کچھ ادھر ادھر میرے مرنے کی اطلاع دینے لگ گئے, عورتین دھارین مار کر میری لاش پر رو رہیں تھین جن کی آواز سے میری روح کو تکلیف پہنچ رہی تھی۔ مین سب کچھ دیکھ اور سن پا رہا تھا پر بول نہیں سکتا تھا ۔ میری ںظرین وسیع ہو چکین تھین, مجھے سب کچھ آسانی سے دکھائی دے رہا تھا ۔ گھر مین مہمانوں کا آنا جانا بڑھنے لگا۔۔۔۔۔۔کچھ میری تعریف کر رہے تھے کہ مرحوم اچھا تھا تو وہاں کچھ برائی بھی کر رہے تھے , اور برائی کرنے والوں کی وجہ سے میری روح کو تکلیف پہنچ رہی تھی۔
تھوڑی دیر مین مسجد مین میرے نام کا اعلان ہونے لگا, اعلان سن کر مین حیران ہو رہا تھا کہ دنیا مین جب زندہ تھا تو میرا نام لینے سے پہلے میرا عہدہ , مرتبہ, میری تعریف بیان ہوتی تھی اور آج صرف اتنا کہا گیا کہ “احمد خان ولد اعتزاز خان اس فانی جہان سے ہمیشہ کے لیے انتقال کر چکے ہین۔ میری روح مکمل قبز ہو چکی تھی, اتنے مین دوسرہ فرشتہ میرے پاس آیا اوکہنے لگا اے ابن آدم تم نے جو مال جمع کیا تھا وہ کہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم جو ساری زندگی دولت کمانے اور جمع کرنے کے چکر مین خدا سے غافل رہے تو بتاؤ اب وہ دولت تیرے کس کام کی ہے۔۔۔۔۔۔۔کیا وہ تماری جمع کی ہوئی دولت تمہین خدا کے عذاب سے بچا سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر گز نہین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہین جب معلوم تھا کہ قبر مین صرف اچھے اعمال کامآئین گے تو پھر بھی تم خدا کی عبادت اور اس کے حکمون سے غافل کیون رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیون دنیا کے چکر مین جان بوجھ کر بغیر کسی مجبوری کے نمازین چھوڑین۔۔۔۔۔اب تیار ہو جاو اپنے اچھے برے انجام کے لیے۔ اس کے کسی بھی سوال کا میرے پاس جواب نہیں تھا , مین اس کے سوالون سے شرمندہ ہو رہا تھا اور میرے اوپر ڈر حاوی ہونے لگا تھا کہ نہ جانے دفن ہونے کے بعد قبر مین مجھ سے کیا ہوگا?
پھر مجھے جلد ہی سے غسل دینے کے لیے لے جایا گیا, غسل دینے والا جب میرے جسم کو چھو رہا تھا تو مجھے بڑی تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔کیونکہ اس کی زبان پر کوئی قرآنی آیت, درود پاک اور کلمہ وغیرہ نہیں تھا ۔۔۔۔میرے اوپر کھڑے سب اپنی باتون مین مگن تھے کوئی میری موت سے خوف نہیں کھا رہا تھا کہ انہیں بھی مرنا ہے , کسی کی زبان پر کوئی نیک کلمہ نہیں تھا جس سے میری روح کو سکون پہنچتی۔۔۔میری روح وہاں گنہگار روحوں مین شمار تھی۔۔جسے لوگون کی دعائین ہی سکوں پہنچا سکتین تھین۔
تھوڑی ہی دیر مین مجھے غسل بھی دیا گیا پھر مجھے چار پائی پر سلایا گیا, اب میرے چارون طرف میرے گھر والے, بیوی بچے, بھائی بہنیں , رشتےدار, دوست احباب سب میری لاش پر رو رہے تھے ۔ میرے دوست جنہون نے مجھ سے وعدے کیے تھے کہ ہم ہر مشکل وقت مین تمہارے ساتھ رہینگے اج وہ بھی دور کھڑے اکیلے کونے مین رو کر خاموشی سے مجھے الوداع کر ریے تھے ۔ پھر ایک شخص آکر کہنے لگتا ہے جنازہ اٹھانے کا وقت ہو چکا ہے باہر سب انتظار مین ہین, سنتے ہی میرے گھر والے پھر سے میری چار پائی کو چہک گئے اور زورون سے رونے لگ گئے, مین اں کے رونے سے پریشان ہو رہا تھا ۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا یہ سب میرے لیے اتنا کیون رو رہے ہین۔۔۔۔کیا مین نے ان کو کوئی دکھ دیا ہے ۔ ان سب کو ہٹا کر میرے جنازے کو اٹھایا گیا, مین پریشان ہو رہا تھا یہ سب مل کر مجھے کہاں لے جا رہے ہین?۔۔۔۔۔۔۔۔۔مین ایک چار پائی پر تھا اور میرے آس پاس بڑی تعڈاد مین لوگ تھے , میرا جنازہ سفر مین ہی تھا کہ اتنے مین تیسرا فرشتہ میرے پاس آیا اور کہنے لگتا ہے ” اے ابن آدم تم ایک لمبے سفر کی طرف روان دوان ہو ۔۔۔۔۔جو تو یہ سفر پہلی بار کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔سفر کے اختتام پر تمہین ایک چھوٹے اور تنہا مکان مین رکھا جائے گا
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قبر کا سفر ۔۔۔۔۔۔
قسط۔۔03
میرا جنازہ سفر مین ہی تھا کہ اتنے مین تیسرا فرشتہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا “اے ابن آدم تم ایک لمبے سفر کی طرف روان دوان ہو۔۔۔۔جو تو یہ سفر پہلی بار کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔سفر کے اختتام پر تمہین ایک تنگ مکان مین دفنایا جائے گا جس مکان مین تم پہلے کبھی نہیں ریے۔۔۔۔۔اور اگر تہارے اعمال اچھے ہونگے تو وہ تنگ مکان تمہین تنگ نہین لگے گا اور اگر تیرے اعمال اچھے نہیں ہونگے تو وہ تنگ مکان مزید تمہین تنگ لگے گا ۔۔۔۔کیونکہ سب اپنے اعمال سے ہی اس مکان کو کشادہ اور تنگ کرتے ہین۔ تمہین پہلی بار اس تنگ مکان مین رکھا جائے گا اور تمہاری ہمیشہ کی زندگی قیامت تک اسی مکان مین گذرےگی۔ اتنے مین وہ غائب ہو گیا اور مجھے پریشانی ہو رہی تھی کہ نہ جانے مجھے وہ مکان کیسے ملے گا تنگ یا کشادہ۔۔۔۔اگر مجھء تنگ مکان ملا تو مین کیسے گذارونگا قیامت تک اس تنہا مکان مین ۔۔۔اور میرے جنازے پر بھی شریک سبھی لوگ اپنی دنیا داری کی باتون مین لگے ہوئے تھے کسی کی زبان پر کلمہ شہادت نہیں تھا جس سے مجھے امید ہو کہ مجھے کشادہ مکان ملے گا۔۔۔آخر کار میرا جنازہ قبرستان مین پہنچا, جہان پہلے سے ہی میرے لیے ایک گڑھے کی طرح قبر کھودی ہوئی تھی۔۔۔جسے دیکھتے ہی میرے دل مین خوف خدا بڑھنے لگا کہ نہ جانے اس تنہا قبر مین مجھ سے کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔مین اس ڈراؤنی تنہا قبر کو دیکھ کر پچھتا رہا تھا کہ ” کاش مین نے دنیا مین اس تنہا قبر کو روشن کرنے کے لیے اچھے کام کیے ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش مین اذان سننے سے پہلے ہی مسجد چلا گیا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔کاش مین خود بھوکا رہ کر غریبون کی مدد کر کہ نیکیان کماتا۔۔۔۔۔۔۔۔کاش مجھے یہاں سے ایک موقع مل جاے, خدا کی قسم مین ساری زںدگی خدا کی بندگی مین گذارونگا ۔۔۔۔۔۔ایک ایک پل خدا کی عبادت مین گذارونگا ۔۔۔لیکن اس وقت میرے پاس کاش کے علاوہ اور کچھ کہنے کو نہیں تھا ۔
میری قبر کو تیار کیا گیا, پھر مجھے اس مین اتارنے کے لیے اٹھایا گیا, مجھے قبرستان مین قبرون کی ساری روحین نظر آرہین تھین۔۔۔جو مجھے عجیب نظرون سے دیکھنے لگین تھین۔۔۔۔اب مین قبر مین اتر چکا تھا اور میرے اوپر مٹی ڈالنے سے پہلے میرے لیے دعائین مانگی جا رہیں تھین۔۔۔مین خاموشی سے انہیں سن رہا تھا ۔۔۔اتنے مین چوتھ فرشتہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا ” اے ابن آدم کل تو زمین کے اوپر تھا اور آج تو زمین کے اندر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔کل جب تو زمین کے اوپر تھا تب تو ہر چیز مین آزاد تھا چاہے گناہ کرتے یا ثواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین پر تمہین آزاد چھوڑاگیا تھا لیکن اب تو زمین کے اندر ہےاور ہیان تیرری کوئی مرضی نہیں چلنے والی۔۔۔۔۔۔یہاں صرف تیرے اعمالون کو دیکھ کر مرضی چلے گی اگر اچھے ہونگے تو تو تم یہاں بھی آزاد اپنی مرضی سے یہاں کی زندگی گذاروگے اور اگر اچھے اعمال نہیں ہونگے تو پھر ہماری مرضی چلے گی۔۔۔۔۔۔۔۔اے ابں آدم تو زمین پربڑا اکڑ کر چلتا تھا تو آج زمین کے اندر خاموش کیون ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہین معلوم بھی تھا کہ ایک دن یہاں آنا ہے تو پھر اکڑ کس بات کی تھی۔۔۔۔۔۔کیون خدا کو بھول کر خود ہی فیصلے کرنے والے بن گئے۔۔۔۔۔زمین کے اوپر کیون لوگون کے لیے زمین تنگ کردی تھی۔۔۔کیون مظلومون پر ظلم ڈھاتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں سب سے محبت سے کیون نہیں رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش تم نے وہاں تکلیف برداشت کی ہوتی تو آج یہاں تمہین تکلیف نہ ملتی۔۔۔۔۔وہاں تم نے اگر مدد کی ہوتی تو یہاں بھی تیری مدد ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔تم نے وہاں رحم کیا ہوتا تو یہاں بھی تم پر رحم ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں تم نے معاف کیا ہوتا تو یہاں بھی تمہین معاف کیا جاتا۔۔۔۔۔کیا تم بھول چکے تھے کہ خدا کی مرضی سے یہاں بھی تمین آنا ہے ۔۔۔ اس کے کڑے سوالون سے مزید میری روح کو خوف ہونے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔اب میرے اوپر مٹی ڈالی جا رہی تھی۔۔۔۔وہ منظر مجھے ڈرا رہے تھے۔۔۔۔۔مین چیخ رہا تھا۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قبر کا سفر ۔۔۔۔۔
قسط۔۔۔04
اس کے کڑے سوالون سے مزید میری روح کو خوف ہونے لگا۔۔اب میرے اوپر مٹی ڈالی جا رہی تھی۔۔وہ منظر مجھے ڈرا رہا تھا ۔۔مین پاس کھڑے اپنون سے چیخ چیخ کر کہ رہا تھا خدا کے لیے مجھے یہاں تنہا نہ چھوڑ جاؤ ۔۔۔۔۔مین دنیا مین تم لوگون کے بڑے کام آیا تھا اب خدارا تم لوگ میرے کام آؤ۔۔۔۔۔مجھے اس تنہا مکان مین اکیلا نہ چھوڑو۔۔۔۔مجھے وہشت ہونے لگی ہے اندھیری قبر سے۔۔۔کوئی بھی میری منت نہیں سن پا رہا تھا ۔۔سب جلد سے مجھے دفنانے مین لگے ہوئے تھے ۔ میری قبر پر مٹی ڈل چکی تھی۔۔سب مجھے دفنا کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔۔۔اب مین اس قبر مین تنہا تھا ۔۔۔۔۔مجھے وہشت ہونے لگی کہ نہ جانے مجھ سے کیا کیا جائےگا۔۔۔۔۔۔۔اتنے مین پانچوان فرشتہ آیا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔اے ابن آدم وہ لوگ جو دنیا مین تیرے سب سے عزیز تھے ۔۔۔۔اب وہ تمہین دفن کر کہ چلے گئے ہین۔۔۔اور اگر وہ پاس بھی ہوتے پھر بھی تیری مدد نہیں کر پاتے۔۔۔۔ان سے تمہارا جو بھی رشتہ تھا وہ دنیا مین ہی تھا ۔۔یہاں وہ رشتے تجھے نہیں بچا سکتے۔۔۔۔یہاں پر تمہین اپنے اعمال ہی بچا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔آج یا تو تم جنت مین جاؤ گے یا پھر دوزخ مین ڈالے جاؤ گے ۔ اب مین اندھیری قبر مین اکیلا خوف سے نڈھال تھا ۔۔۔۔اپنے انجام کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔اب میرے لیے دنیا کی ساری رنگینیان رونقین ختم ہو چکین تھین۔۔۔۔۔۔یارون سے محفلین۔۔۔نادانیان۔۔۔۔عبادت سے ناگواری سب کے انجام کا وقت آچکا تھا ۔۔۔۔۔مین خوف زدہ تھا کہ نہ جانے اب کیا ہونے والا ہے مجھ سے۔۔۔۔۔۔اتنے مین قبر مجھ سے بات کرنے لگی
اے ابن آدم۔۔۔۔۔۔۔اے انسان۔۔۔۔تو بھی کتنا نادان تھا ۔۔۔۔دنیا مین اتنے مگن ہو گئے کہ یہاں قبر کی اندھیری اور تنہائی کو کبھی سوچا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔تم نے اگر دنیا مین اس اندھیری قبر کو روشن کرنے کا سوچا ہوتا تو آج تیرے چہرے پر خوف نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔۔تم اپنے انجام کو سوچ کر نہ ڈرتے۔۔۔۔۔۔۔تیرا خدا کو چھوڑ کر دنیا کی رنگین مستیون مین لگ جانا آج وہی رنگین مستیان تجھے آگ مین لے جائین گیں۔۔۔۔۔۔تم نے اپنے لیے دولت جمع کی اور ساری زندگی کرتے رہے ۔۔۔۔سال مین ایک بار بھی زکوات دینے کی زحمت نہ کی ۔۔۔۔۔تیرے پڑوس مین بھوکی ماں کے بھوکے بچے سو گئے تم نے پوچھنا اور جانچنا بھی گوارا نہ سمجھا ۔۔۔۔۔۔۔تو خاندان والوں سے دوستون سے عیاشیان پارٹیان کرتے رے, ہزاروں کے بل آئے تو نے ہنسی خوشی ادا کیے۔۔۔۔باہر ہاتھ جوڑ کر کھڑے بھوکے فقیر کو کچھ پیسے نہ دیے۔۔۔۔تو آج تیرا وہ سارا جمع کیا مال تمہین سانپ اور بچھو بن کر ڈسین گے۔۔۔۔۔۔۔ڈس ڈس کر تمہارے جسم کی بوٹیان نوچ کر کھا جائین گے ۔۔۔۔۔۔تو یہ نہ سوچ کہ انہون کے ڈسنے سے تمین موت آجائے گی۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں تجھے کبھی موت نہیں آئے گی۔۔۔۔۔۔اے انسان تو خدا کے عذاب سے کیون اندھا بن چکا تھا ۔۔۔۔۔دنیا داری مین لاکھوں اڑا دیے چند پیسے مسکینون کو ہی دے دیتے۔۔۔۔۔بیوی سے اپنا ہر حکم منوایا کبھی نماز کا بھی کہا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔بچوں کو مہنگی جگہین تعلیم دلوائی کبھی انہیں نماز اور قرآن بھی سکھایا ہوتا۔۔۔۔کم سے کم جو آج تجھ پر کچھ آیتین پڑھ کر بخشتے۔۔شاید ان سے ہی تیری بخشش ہو جاتی۔۔۔۔اب کچھ دیر مین تیرے پاس یہاں منکر نکیر آئین گے ۔۔۔۔۔۔جو تجھ سے کچھ سوال کرین گے ۔۔۔۔۔۔سوال بہت ہی آسان ہونگے۔۔۔۔تم اگر مؤمن ہوگے تو ان سوالون کا جواب آسانی سے دے جاؤ گے۔۔۔۔۔۔اگر تم مؤمن نہیں ہوگے تو کسی ایک کا بھی جواب نہیں دے پاؤگے۔۔۔۔اس کے بعد تم پر رحم کیا جائے گا یا عذاب دیا جائے گا ۔ مین ان منکر نکیر کے انتظار مین تھا ۔۔۔۔۔نہ جانے کب آئین گے۔۔آئین گے تو کیا پوچھیں گے۔۔۔۔۔کچھ دیر مین وہ خوفناک چہروں سے آئے ,وہ دو ہی تھے ۔۔۔۔مجھ سے پوچھنے لگے۔۔۔تیرا رب کون ہے ۔۔۔۔۔۔سوال آسان تھا پر جواب دینے کے لیے میری زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔۔کیونکہ مین مؤمن نہیں تھا ۔۔۔۔مین نمازی نہیں تھا ۔۔۔مین خدا کا فرمانبردار بندہ نہیں تھا, مین جواب مین خاموش رہا پھر پوچھنے لگے تیرا نبی کون ہے۔۔۔۔اس بار بھی مین خاموش ہی رہا ۔۔۔۔کیونکہ مین دنیا مین عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو تھا پر اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی درود نہ پڑھا۔۔۔۔کبھی اس کا دل سے میلاد نہیں منایا۔۔۔۔۔کبھی اس کی طرح بندون سے محبت مین نہ رہا ۔۔۔۔۔کبھی اس کی طرح یتیمون اور مسکینون کو اپنا نہ سمجھا ۔۔۔۔۔تو آج صرف اس نام کے عاشق رسول کا اپنے نبی کا نام لینے کے لیے زبان بھی ساتھ نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔پھر پوچھنے لگے تیرا دین کیا ہے۔۔۔۔۔اس بار بھی مجھ سے جواب نہیں دیا جا رہا تھا ۔۔۔۔کیونکہ مین دنیا مین دین کے قریب ہی نہیں تھا ۔۔۔۔دین کے احکامون سے غافل تھا ۔۔۔۔جھوٹا تھا مکار تھا صرف نام کا ہی مسلمان تھا ۔ جب انہیں کسی بھی سوال کا جواب نہیں ملا تو وہ غصے سے چلے گئے۔ ان کے جانے کےبعد مجھے قبر مین تپش ہونے لگی تھی۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قبر کا سفر ۔۔۔۔۔
قسط۔۔۔۔05
انہیں کسی بھی سوال کا جواب نہ ملا تو وہ غصے سے چلے گئے ۔ان کے جانے کے بعد میری قبر مین تپش ہونے لگی تھی, میرے بائین طرف سے ایک کھڑکی نما جگہ کھل گئی, اس کھڑکی مین سے آگ شعلون کے ساتھ میرے قریب ہو رہی تھی۔۔۔۔قبر مین بدبوء بڑھنے لگی تھی۔۔۔۔اور قبر چارون طرف سے تنگ ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔آگ کی تپش سے میرے جسم کا بایان حصہ جل رہا تھا ۔۔۔۔۔مین چیخا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔چیخ کر پوچھا یہ مجھ سے کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔کیون میری قبر تنگ ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔آگ کیون میرے جسم کو جلا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔قبر سے آواز آنے لگی۔۔اے اانسان قبر کا تنگ ہونا۔۔۔۔ بائیں طرف سے کھڑکی کھلنا یہ سب تیرے اعمالون کا کیا دھرہ ہے ۔۔۔۔تو اگر دنیا مین خود کو تنگ رکھتا تو تمہین یہاں وسیع قبر ملتی۔۔۔۔اب تیرے چیخنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔۔۔یہاں تیرے جیسے تیری طرح کے بیشمار انسان چیخ رہے ہین یہ سب تجھے پہلے سوچنا چاہئیے تھا اب عذاب کے لیے تیار ہوجا۔۔۔۔وہ آواز خاموش ہوگئی۔
آگ میرے بہت قریب آچکی تھی۔۔۔میرا چہرہ آگ سے جل رہا تھا ۔۔۔اس آگ کی تپش دنیا کی آگ سے کئی گنا زیادہ تھی۔۔آگ کی تپش مزید تیز ہوتی جا رہی تھی۔۔۔کچھ ہی لمحون مین میرے چہرے سے ہو کر پورے جسم کو جلانے لگی تھی۔۔۔۔بہت دیر تک مین آگ مین جلتا رہا چیختا رہا پر وہاں کوئی میری چیخ و پکار سننے والا نہیں تھ۔۔۔۔کچھ دیر بعد میرے جسم سے آگ بجھنے لگی۔۔۔میرے جسم کو ٹھنڈہ سکوں مل رہا تھا ۔۔مین نے پھر پوچھا اچانک میرے جسم سے آگ کیون بجھ گئی۔۔۔۔اور میرے جسم کو راحت بھرا سکوں کیسے مل رہا ہے۔۔۔مین تو گنہگار ہون۔۔۔غیبی آواز سے مجھے جواب ملا ۔۔دنیا مین تیرے وارث تیری بخشش کے لیے قرآن خوانی کروا رہے ہین۔۔۔اور جب تک تیرے لیے قرآن کی تلاوت ہوتی رہے گی تب تک تمہین کوئی عذاب نہیں دیا جائے گا ۔۔۔۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے اس قرآن اور دعاؤن کے صدقے تیری بخشش کی جائے۔کافی دیر تک مجھ سے عذاب ٹلا رہا ۔۔۔۔پھر اچانک سے قبر مین وہی بدبوء آنے لگی۔۔۔گرم ہوا پھر سے چلنے لگی۔۔۔۔پھر سے بائین کھڑکی کھل گئی۔ پھر غیبی آواز آئی دنیا مین تیرے وارث اب بھی اگر اپنے دوستون اور دنیا کے سامنے نام بنانے کو چھوڑ کر تمہارے نام کا صدقہ خیرات غریبون اور مسکینون مین تقسیم کرین تو اب بھی تمہاری بخشش ہو سکتی ہے ۔۔۔کیونکہ خدا تب بہت خوش ہوتا ہے جب کوئی اس کے بھوکے بندے کو روٹی کھلاتا ہے ۔۔۔اب تو اپنے عذاب کے لیے پھر سے تیار ہوجا۔
اس کے خاموش ہوتے ہی پھر سے آگ کا جلنا۔۔ناقابل برداشت بدبوء۔۔۔مین پھر سے چیخنے لگا۔۔۔۔اتنے مین میری قبر سے ایک بڑا بچھو نکلنے لگتا ہے جو میرے پاؤن سے ہو کر میرے منہ کی طرف آتا ہے ۔۔۔اتنے مین اس کے جیسے اور بھی بہت بچھو نکلنے لگے جو انسانی ہاتھ سے بہت بڑے موٹے کالے اور خطرناک تھے جنہین دیکھتے ہی مین تڑپنے لگا۔۔۔پھر چیخ کر پوچھا ی۔۔یہ ۔۔۔یہ کیا ہو رہا ہے مجھ سے۔۔غیبی آواز سے جواب آیا۔۔۔اے انسان یہ بچھو تمہارے گناہ سے پیدا کیے گئے ہین۔۔۔تم جو دنیا مین کسی کو گالی دیتے تھے اس ایک گالی کے بدلے یہاں ایک بچھو پیدا ہوتا تھا ۔۔۔اور اب یہ تمہین نوچین گے۔۔۔اس کے ایک ڈس سے تم زمین مین کئی نیچے چلے جاؤگے پھر اوپر آؤگے پھر دوسرا ڈسے گا ۔۔جتنی تم نے گالیان دی ہونگی, جتنے بچھو ہونگے۔۔۔اتنی ہی بار تمہین ڈسہ جائے گا اور اس کی تکلیف کا کوئی اندازہ بھی نہیں لگا ستا, اور اس تکلیف کے بعد تمہین احساس ہوگا کہ کاش تم نے کسی کو مزاق مین بھی گالی نہ دی ہوتی۔وہ ان گن بچھو تھے جن سے میری قبر بھر چکی تھی, باری باری ایک ایک ڈستہ گیا ان کے ڈسنے سے جو تکلیف پہنچ رہی تھی اس کا کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا۔ کافی دیر تک مین اسی عذاب مین تڑپتا رہا ۔ جب مجھ پر وہ سزا پوری ہوئی تو مجھے بڑے جہنم مین لایا گیا, وہاں کی دنیا ہی الگ تھی, ایسی دنیا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا, جہنم کی دنیا بہت بڑی تھی, ہر جگہ آگ ہی آگ تھی, میرے ساتھ ایک سزا دینے والا فرشتہ تھا جس نے مجھ سے کہا اے انسان یہ وہ جہان ہے جس کا دنیا مین کوئی انسان تصور بھی نہیں کر سکتا, یہاں سبھی گنہگار ہین اور اب تم دیکھوگے کس کو کس گناہ کی سزا مل رہی ہے ۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قبر کا سفر ۔۔۔۔۔
آخری قسط۔۔۔۔06
مجھے بڑے جہنم مین لایا گیا,وہاں کی دنیا ہی الگ تھی, ایسی دنیا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا, جہنم کی دنیا بہت بڑی تھی, ہر جگہ آگ ہی آگ تھی, میرے ساتھ سزا دینے والا ایک فرشتہ تھا جس نے مجھ سے کہا اے انسان یہ وہ جہان ہے جس کا دنیا مین کوئی انسان تصور بھی نہیں کر سکتا, یہاں سبھی گنھگار ہین اور اب تم دیکھوگے کس کو کس گناہ ی سزا مل رہی ہے۔مین خوف زدہ ہو چکا تھا ہر طرف چیختے لوگ تھے, جو آگ مین جکے جا رہے تھے, مین ایک جگہ پہنچا جہان جہنم کا ایک بڑا گڑہ تھا جس مین ان گن لوگ جل رہے تھے, ان کی چیخین اتنی زور سے تھین کہ اگر وہ آوازیں دنیا مین سنی جاتین تو ہر انسان کے کانون کے پردے پھٹ جاتے, جس طرح وہ آگ مین جل رہے تھے اگر دنیا والون کو دکھائی دیتا تو وہ دکھتے ہی مر جاتے, پھر فرشتہ کہنے لگا جہنم کے اس گھڑے مین یہ سب مسلمان ہین, انہون نے دنیا مین بہت سے اچھے کام کیے غریبون مسکینون کی مدد کی , خدا کے نام کی خیراتین کین, لوگون کے کام آے پر انہون نے وہ نہیں کیا جو انہیں یہاں کام آتا, ۔۔۔۔انہون نے نمازین نہیں پڑھین۔۔۔۔خدا سب کچھ معاف کر سکتا ہے پر جان بوجھ کر نماز نہ پڑھنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ نماز خدا کا اپنے محبوب خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا ایک تحفہ ہے, اگر کوئی بندہ اس کے محبوب کو دیے تحفے کی لاج نہیں رکھتا تو پھر خدا بھی اس بندے کی لاج نہیں رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اسی لیے یہ سب عذاب مین جل رہے ہین کیونکہ انہون نے جان بوجھ کر نماز نہیں پڑھی۔ اسی گڑھے کے ساتھ وہاں جہنم کا چھوٹا ایک اور بھی گھڑا تھا جس مین بھی بہت سے لوگ عذاب کاٹ رہے تھے پر ان پر تھوڑی نرمی تھی, میرے حیران ہو کر پوچھنے پر جواب دیا یہ وہ سب ہین جو کبھی کبھار نماز پڑھتے تھے , انہین کم عذاب اس لیے مل رہا ہے کیونکہ انہون نے جتنی بھی تھوڑی بہت سی نمازین پڑھین تھین ان نمازون کے صدقے اور اجر مین ان کی سزا کم کی گئی ہے۔پھر مین جہنم کے دوسرے گڑھے مین پہنچا,جو بہت بڑا تھا اس مین بھی وہی سب کچھ تھا آگ چیخین رونا معافی مانگنا, اس گڑھے مین صرف عورتین ہی تھین جو سخت عذاب جھیل رہیں تھین, ان کے جسم کو آگ جلا رہی تھی اور مختلف خطرناک جیت جسم کو نوچ رہے تھے جن کے نوچنے سے جسم کی بوٹیان نکل رہیں تھین, ان کی معافیان اور چیخ و پکار تھی ہم پر رحم کھایا جائے۔۔۔۔۔ہمیں آخری بار دنیا مین واپس بھیجو۔۔۔۔۔خدا کی قسم کبھی گھر سے نہیں نکلین گی۔۔۔۔۔کبھی غیر محرم کو نہیں دیکھین گے۔۔۔۔۔ہر وقت عبادت مین رہیں گے۔۔۔۔اپنا جسم ڈھکہ چھپا کر پردے مین رکھین گے۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی اپنے جسم کی نمائش نہیں کرین گے۔یہ سب کیا کہ رہی ہین۔۔۔۔میرے سوال پر فرشتہ کہنے لگتا ہے۔۔۔یہ وہی عورتین ہین جو دنیا مین اس عذاب سے غافل رہین۔۔۔۔۔جو خدا اور قرآن کے حکم کو ٹھکڑا کر دنیا کے مزے مین لگ گئین۔۔۔۔ان عورتون نے اپنے جسم پر اپنی مرضی چلائی۔۔۔۔انہون نے اپنے جسم کو پردے مین نہیں رکھا ۔۔۔۔۔۔۔انہون نے قرآن کے حکم کو چھوڑ کر نامحرم مردون کے کندھون سے کندھے ملائے کو ترجیح دی۔۔۔انہون نے دولت اور شہرت کی خاطر اپنا جسم بیچا۔۔۔۔۔اپنے آپ کو نامحرم مردوں کی نظرون مین لائین۔۔۔۔انہون نے خاتم انبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی پاکیزگی اور پردے کو چھوڑ کر دنیا کی مکار اور غلیظ عورتون کو اپنا ideal سمجھا اور اپنی زندگی بھی انہون کی طرح گذارنے لگین۔۔۔۔اگر انہون نے چار دن کی زندگی مین دنیا کے مزے اور بے حیائی کو چھوڑ کر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح پاگیزگی اور پردے مین گذاری ہوتی تو آج یہ عورتون کی اسی جنت کی سردار حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے جنت کے کسی خوبصورت باغ مین ان کے بھیچون بھیچ ہوتین۔۔۔۔لیکن اب ان کا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔کیونکہ یہ ہمیشہ کے لیے اس جہنم مین ڈال دی گئین ہین۔پھر اسی کے ساتھ ایک اور چھوٹا گھڑا تھا جس مین بھی صرف عورتین ہی تھین, لیکن ان پر عذاب مین کچھ نرمی تھی میرے پوچھنے پر جواب ملا یہ وہ عورتین ہین جنہون نے ساری زندگی اپنے جسمون کو نامحرم سے چھپانے کی پوری کوشش کی اور اپنی نظرون کو نامحرم سے ہٹائے رکھا ۔۔۔ان پر عذاب مین کمی اسی لیے ہے کیونکہ ان کے گناہ بہت چھوٹے ہین۔۔۔ان کے